سنا ہے خان صاحب کو سانحہ ساہیوال پر بہت صدمہ اور رنج ہوا ہے۔ کیا واقعی! مجرموں کو کلین چٹ شاید اسی صدمے کے زیر اثر دی جا رہی ہے۔ یعنی صدمہ کے اثرات کچھ زیادہ ہی ہو گئے ہیں۔ سانحہ ساہیوال تو ہوگیا‘ اس کے بعد جو ہورہا ہے‘ اسے کیا نام دیا جائے؟ انصاف کے سونے پر تبدیلی کا سہاگہ؟ مجرموں کی ویڈیوز موجود ہیں۔ گاڑی کو روکنے کی ویڈیو‘ گاڑی کے دروازے کھول کر دو بچوں کو باہر نکالنے کی ویڈیو‘ پھر فائرنگ کی بوچھاڑ کرنے کی ویڈیو‘ اس کے بعد موقع واردات سے فرار ہونے کی ویڈیو‘ ان بہت سی ویڈیوز کی موجودگی میں مقدمہ درج ہوا ہے تو نامعلوم افراد کے خلاف۔ گویا اب نامعلوم افراد پر مقدمہ چلے گا اور انہیں غائبانہ سزا دی جائے گی۔ مجرموں کو کلین چٹ تو صوبائی وزیر نے دے دی۔ فرمایا‘ مقتول ذیشان داعش کا سرغنہ تھا۔ یہ کیسے معلوم ہوا‘ معلوم نہیں۔ سی ٹی ڈی نے اس پر فائرنگ کی‘ باقی لوگ یونہی کولیٹرل ڈیمج کے طور پر مارے گئے۔ قصہ ختم‘ اب کوئی قانون دان بتا دے کہ جے آئی ٹی کی ضرورت ہی کہاں رہی۔ سارا ماجرا‘ ساری حقیقت تو وزیر قانون نے کھول کر رکھ دی۔ ویسے بھی جے آئی ٹی کے عناصر ترکیبی اور اس کے سربراہ کا نام جان لینے کے بعد اس کی ’’فائینڈنگ‘‘ کے بارے میں کسی کو دلچسپی ہی کہاں رہی۔ معلوم ہے کیا ہوگا۔ ٭٭٭٭٭ سی ٹی ڈی بار بار بیان بدل چکی ہے۔ ایک بیان یہ ہے کہ کار کے کالے شیشوں کی وجہ سے فائرنگ کرنے والوں کو پتہ نہ چل سکا کہ اندر عورتیں اور بچے بھی ہیں۔ شیشوں کا سوال کہاں سے آ گیا۔ ویڈیو میں صاف سب نے دیکھا کہ پہلے کار کے دروازے کھولے‘ پھر اندر سے دو بچوں کو باہر نکالا‘ اس کے پون منٹ بعد فائرنگ کی گئی۔ ایک بیان یہ تھا کہ فائرنگ کسی (طلسماتی) موٹرسائیکل والے نے کی‘ جوابی فائرنگ میں کار والے مارے گئے۔ یہ طلسماتی موٹرسائیکل کسی عینی شاہد نے دیکھی نہ کسی کیمرے میں اس کی فوٹیج آئی ہے۔ ایک بیان یہ بھی کہ فائرنگ دہشت گردوں کے کسی ساتھی نے کی‘ اسی سے یہ سارے لوگ مر گئے۔ ٭٭٭٭٭ وزیراعلیٰ بزدار رات گئے 38 پروٹوکول گاڑیوں کا عظیم الشان قافلہ لے کر ساہیوال پہنچے اور بچوں کو پُرسہ دیا۔ اس پر تنقید ہورہی ہے۔ ہو سکتا ہے وزیراعلیٰ بچوں کہ یہ باور کرانا چاہتے ہوں کہ دیکھو‘ کتنی مہان ہستی تم سے ملنے آئی ہے۔ ایسا ہے تو مہانتا میں دو گاڑیوں کی کسر رہ گئی۔ چالیس ہوتیں تو مہانتا پر مہر لگ جاتی۔ اس کے بعد وزیراعلیٰ نے بچوں کو پھول پیش کئے۔ کیا وہ سالگرہ میں گئے تھے؟ ہو سکتا ہے ان کے ساتھیوں نے انہیں ایسا ہی کچھ بتایا ہو۔ بزدار جہاں بھی جاتے ہیں درجنوں گاڑیوں کے پروٹوکول کے ساتھ جاتے ہیں۔ سینکڑوں پولیس والوں کی تعیناتی الگ ہوتی ہے۔ سڑکیں بند کرنے کا نام جھام اپنی جگہ۔ پتہ نہیں یہ ضرورت ہے یا عادت۔ شاید کسی پیرومرشد نے اس کی تاکید کی ہو کہ ایسا کرنے سے حکومت کی ’’رٹ‘‘ اچھے طریقے سے قائم رہے گی۔ ٭٭٭٭٭ سانحہ ساہیوال پر وزیروں کے جتنے بھی بیانات آئے‘ سبھی پر واللہ کمال ہے ‘کہا جا سکتا ہے‘ لیکن ایم آئی 6 کے مندوب خصوصی سب پر بازی لے گئے۔ فرمایا‘ لوگ تنقید کر رہے ہیں کہ ریاست مدینہ میں ایسے واقعات کیوں ہورہے ہیں تو میں بتادوں کہ ایسے واقعات تو ساری دنیا میں ہوتے رہتے ہیں۔ خصوصی مندوب صاحب‘ پھر اکیلا پاکستان ریاست مدینہ کہاں رہا‘ پھر تو ساری دنیا ریاست مدینہ ہوگی۔ ٭٭٭٭٭ گزشتہ دنوں لاہور کے عجائب گھر والوں نے گیٹ پر ایک خوفناک مجسمہ نصب کردیا جس کے سر پر سینگ بھی تھے۔ لوگوں نے اسے شیطانی مجسمے کا نام دیا اور احتجاج کیا جس پر عجائب گھر والوں نے اس شیطان کو نقاب اڑھا دیا‘ پھر وہاں سے اٹھوا دیا۔ مجسمہ مقامی آرٹس کالج کے طالب علم نے بنایا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے شیطان کا مجسمہ نہیں بنایا تھا‘ اس کے دل میں ایسا کوئی خیال نہیں تھا‘ بس جو اسے سمجھ میں آیا بنا دیا۔ بات ٹھیک ہی کہی۔ شیطان خیال لانے سے آئے ضروری نہیں‘ ذہن کے دروازے کھڑکیوں پر پہرہ نہ ہو تو بن بلائے ہی آ جاتا ہے۔ براعظم یورپ کے کم وبیش ہر شہر میں اسی طرح کے شیطانی مجسمے عام لگے ہوتے ہیں اور تو اور گھروں کے پرنالے بھی انہی بتوں کے ہوتے ہیں جنہیں Gargoyle کہا جاتا ہے۔ بارش کا پانی ان کے کھلے منہ سے ہو کرگرتا ہے۔ یہ مجسمے قدیم دیو مالائی‘ بت پرستی کے دور کے ہیں۔ یورپ عیسائی ہوگیا‘ کلچر وہی دیو مالائی رہا۔ ہالووین کا تہوار بھی اسی دور کی نشانی ہے۔ ہمارے ہاں بعض لوگ اسے عیسائی مذہب کی روایت سمجھتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ ایک سیاسی نجومی نے کہا کہ مجسمے کی تنصیب اس بات کا اعلان تھی کہ ’’میں‘‘ آ گیا ہوں اور یہ ایک برا شگون Badoman تھا لیکن مجسمے کی واپسی اچھا شگون Goodomen ثابت ہوئی‘ یعنی میں جارہا ہوں۔ شاید وہ ٹھیک ہی کہتا ہوگا۔ ٭٭٭٭٭ اسفند یارولی نے کہا ہے کہ عمران خان 50 لاکھ گھر بنانے سے پہلے وزیرستان کے تباہ شدہ گھروں کی تعمیر نو کریں۔ پچاس لاکھ گھروں والی بات تو خان صاحب نے ویسے ہی کردی تھی جیسے 200 ارب ڈالر لانے کی بات کی تھی۔ اسفند یار ولی نے اسے سچ سمجھ لیا اور سنجیدہ ہو گئے۔ کمال ہے۔ خیر‘ اس سے قطع نظر‘ خان صاحب کی حکومت فی الوقت مکان گرائو‘ دکان ڈھائو‘ ٹھیلے الٹائو کی مہم میں مصروف ہے‘ ایسے مصروف وقت میں ان سے کوئی بھی مطالبہ کرنا توجہ ہٹانے کی مذموم کوشش ہوگی جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔