لاہور میں مغل پورہ پل نہر پر موٹر سائیکل سوار محمد عامر پتنگ کی قاتل ڈور پھرنے سے جاں بحق ہو گیا۔ 35 سالہ ہوٹل منیجر عامر گھر سے صدر کی جانب جا رہا تھا کہ قاتل ڈور اس کے گلے پر پھر گئی اور زیادہ خون بہہ جانے سے موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔ صورتحال یہ ہے کہ پتنگ کی ڈور سے جب کوئی ہلاکت ہوتی ہے تو پولیس اور دیگر ادارے بڑے فعال ہو جاتے ہیں، خوب کریک ڈائون ہوتا ہے لیکن چند دنوں بعد پھر وہی پتنگ بازی شروع ہو جاتی ہے۔ خصوصاً ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب شہر کی چھتوں پر پتنگ بازی کی جاتی ہے لیکن پولیس آنکھیں بند کئے رکھتی ہے۔ متذکرہ سانحہ میں بھی متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا ہے اور دعوے کئے جا رہے ہیں کہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہو گی، پتنگ بازی ایکٹ کی پابندی کرائی جائے گی لیکن کیا یہ اب سب کچھ کرنے سے مرنے والا عامر واپس آ جائے گا۔ اس ساری زود پشیمانی کا فائدہ تو تب ہے جب قانون پر عملدرآمد ہو۔ عدالتیں پتنگ بازی کی مکمل ممانعت کر چکی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پتنگ بازی یا بسنت منانے پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور پتنگ بازی کو ثقافتی رنگ دینے کی بجائے اسے خونی کھیل قرار دیا جائے۔ اس کے خلاف عوام میں آگاہی مہم شروع کی جائے اور جو لوگ اس صنعت سے وابستہ ہیں انہیں متبادل روزگار کی طرف راغب کیا جائے۔ خصوصی طور پر مشہور کاروباری ویب سائٹس پر قاتل ڈور فروخت کرنے والوں کے خلاف فی الفور ایکشن لیا جائے۔