خواب کمخواب کا احساس کہاں رکھیں گے اے گل صبح تری باس کہاں رکھیں گے سر تسلیم ہے خم کچھ نہ کہیں گے لیکن یہ قلم اور قرطاس کہاں رکھیں گے کبھی اس انداز سے سوچا ہی نہیں تھا کہ اردو زبان کے حوالے سے قائد اعظم کی سوچ کیا تھی۔بہاولپور سے میری بھانجی مریم نے فون کیا کہ اسے قائد اعظم اور اردو زبان پر مضمون لکھنا ہے۔ظاہر ہے فوراً میں کیا جواب دے سکتا تھا یہی کہ قائد اعظم پاکستان کی قومی زبان اردو کو بنانا چاہتے تھے۔میں نے جب اس موضوع پر سوچنا شروع کیا تو سوچتا ہی چلا گیا اور قائد اعظم کی ہمہ جہت شخصیت مجھ پر کھلتی چلی گئی۔ سچ مچ قائد اعظم ایک غیر معمولی آدمی تھے اور ایسا ذھن رسا رکھتے تھے کہ انگریزوں کو بھی حیرت میں ڈال دیتے تھے۔اچانک مجھ پر منکشف ہوا کہ میرے قائد مسلمانوں کے لئے مکمل آزادی چاہتے تھے۔صرف قطعہ زمین اور دوسرے اثاثے نہیں بلکہ آزاد زبان بھی چاہتے تھے۔ان کی دور بینی کی داد دیں کہ سمجھتے تھے کہ قوم کو متحد اور یکجا رکھنے کے لئے اردو کو قومی زبان کے طور پر نافذ العمل بنایا جائے۔وہ زبان جسے سمجھنا اور بولنا آسان ہو اس میں خیال اور سوچ کا ابلاغ بھی سہل ہو۔ قائد اعظم ایک مفکر تھے انہیں معلوم تھا کہ اگر انگریزی کو اردو سے نہ بدلا گیا تو غلامی کی ایک قبیح صورت برقرار رہے گی۔زبان ایک مائنڈ سیٹ ہے ایک نظام اور مزاج ہے۔ ذرا سوچئے کہ خود قائد اعظم تو انگریزی کے شناور تھے وہ اگر انگریزی کو انتخاب کرتے تو انگریز ان سے کس قد خوش ہوتے اور ان کی بلائیں لیتے مگر اس عظیم شخص کو مسلمانوں کی خوشی اور بھلائی عزیز تھی اور وہ چاہتے تھے کہ اس آزاد قوم کی زبان بھی اپنی ہو،وہ اپنی شناخت اور پہچان رکھ سکے ان کے علم میں تھا کہ زبان صرف بول چال یا لکھت پڑھت نہیں ہوتی یہ کسی بھی قوم کی ثقافت معاشرے تعلیم اور سماج کی آئینہ دار ہوتی ہے، یہ سوچ اور فکر کا نام ہے۔ ایک اور بات یقیناً قائد کے ذہن میں تھی کہ اردو عرب اور فارسی کے خاندان سے ہے۔ان کے حروف تہجی ایک جیسے اور یہ زبانیں دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہیں اور اس طرح ان کی فیملی ان سے مختلف ہے جو بائیں سے دائیںلکھی جاتی ہیں ان کے سامنے یہ بھی تھا کہ انگریزوں نے کس شاطرانہ انداز میں فارسی کی اہمیت ختم کر دی اور انگریزی رائج کر دی۔یہ بہت بڑا حملہ تھا جس نے بیک جنبش قلم فارسی جاننے والوں کو بڑے دھارے سے نکال کر بے علم کر دیا۔یعنی اس حساب سے کہ فارسی کا استعمال یا مصرف نہ ہونے کے برابر ہو گیا۔شیخ سعدی کی اخلاقیات پر مبنی حکایات اور مولانا رومی کی علمی عظمت مثنوی روم اور باقی سب کچھ حرف غلط کر دیے گئے۔تب تو پنجابی ادب کی مشہور کتابوں ہیر اور سیف الملوک میں عنوانات فارسی میں تھے اور پھر اردو چونکہ لشکری زبان تھی اور سب کے لئے قابل فہم تھی اسے یک دم بہت پذیرائی ملی اس میں اتنا کام ہوا کہ اسے مسلمانوں کی زبان کہا جانے لگا۔ قائد اعظم کے پیش نظر یہ سب کچھ تھا کہ اگر اردو قومی زبان ہو گی تو یہ تعلیم کا میڈیم بنے گی۔ دفتری سطح پر رائج ہو گی۔اس کے باوجود کہ مشرقی پاکستان میں قائد اعظم کی اس خواہش کی مخالفت ہوئی مگر قائد اعظم اردو کی اہمیت سمجھتے تھے اور اپنی بات پر قائم رہے۔ زبان قوم بناتی ہے، ہم آہنگی پیدا کرتی ہے، ترقی کا راستہ متعین کرتی ہے۔ آپ قائد اعظم کی اردو سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ انہوں نے کہا تھا کہ جو اردو کا دشمن ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔انہوں نے تو 1945ء میں بھی مسلمانوں کو کہا تھا کہ ووٹ دیتے وقت زبان کے خانے میں اردو لکھیں۔دستور ساز اسمبلی میں اردو ہی کو قومی زبان قرار دیا گیا۔آگے چل کر 1973ء کے آئین میں تو باقاعدہ طے ہوا کہ 15سال کے بعد اردو زبان کو دفتری زبان بنا دیا جائے گا ۔یہ مدت 1988ء میں پوری بھی ہو چکی مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ اصل میں یہ سازش بہت گہری تھی کہ انگریزی کو جیسے ہر صورت رکھا جائے اور ایک کلاس جو بیورو کریسی تھی اسے شاید اسی مقصد کے لئے اس نظام کی اساس بنایا گیا۔سول سروس کی تعلیم بلکہ تربیت ساری انگریزی کے زیر اثر ہے۔اس میں ایک تو احساس برتری فرعونیت کی حد تک تھا اور وہ عام لوگوں سے فاصلہ بھی رکھنا چاہتے تھے۔لہٰذا زبان کا فاصلہ اور اجنبیت درمیان میں خلیج کی صورت حائل رہی قوم جسد واحد نہ بن سکی۔انگریزی نے کتنے اذھان کو علم سے محروم رکھا کہ اس میں اپنائیت نہیں تھی۔ پھر آخر انور مسعود کو بھی کہنا پڑا’’ فیل ہونے کو بھی اک مضمون ہونا چاہیے‘‘ ایک بات اور میں بتا دوں کہ قائد اعظم اردو بول لیتے تھے۔ وہ کمزوری کے اس احساس کو ختم کرنا چاہتے تھے۔قائد کو یہ بھی معلوم تھا کہ مسلمانوں کے شاعر اور محسن علامہ اقبال اردو کے عظیم شاعر تھے اور اسی زبان میں انہوں نے امت کو بیدار کرنے کی سعی کی۔پھر جب انگریز سٹیٹس کو کے زیر اثر ایک ہوا چلی تو انگریزی میڈیم سکول کھمبیوں کی طرح اگ آئے۔اصل میں ہمارے قائدین نے اپنی زبان کے ساتھ وفا نہیں کی اور غلامی کو باعث افتخار سمجھا اردو کی بقا کے لئے کوششیں ضرور ہوئیں۔ان کوششوں میں فاطمہ قمر اور عزیز ظفر آزاد(مرحوم) اور جمیل بھٹی کی کوششیں بھی قابل ذکر ہیں۔اس میں کامیابیاں بھی ہیں۔ اب بھی بہت کام کی ضرورت ہے۔قائد اعظم کو اردو کو قومی زبان کے لئے انتخاب کرنا کوئی معمولی فیصلہ نہ تھا۔ہم ہی اس کی اہمیت کو سمجھ کر اسے لاگو نہ کر سکے۔ایک سازش اور نیت کا فتور۔اس زبان سے تو ہندو بھی خائف تھا اور ہے۔بھارتیوں کو ڈر تھا کہ یہ اردو ہندی پر غالب آ سکتی ہے۔وہی آفاقی اصول کہ کوئی زبان بھی اگر کسی پر غالب آتی ہے تو اس تک اپنا بہت کچھ پہنچا دیتی ہے ادھر تو مسئلہ معیشت کا بھی تھا ملازمتوں کے مواقع باہر پیدا ہوئے۔برین ڈرین ہوا اور پھر چل سو چل۔آغاز میں کچھ محب وطن مصنفین نے سائنس کو اردو میں ڈالنے کی کوشش بھی کی مگر اس کام میں بہت زیادہ تسلسل اور حکومت کی سرپرستی چاہیے تھی۔ اردو کو اپنانا ناگزیر ہے۔ایک مضبوط تحریک کی ضرورت ہے۔کہ علامہ اقبال کے استاد حضرت داغ دہلوی نے کس فخر سے کہا تھا: اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ ہنوستان میں دھوم ہماری زبان کی ہے