معزز قارئین!۔ ’’یوم پاکستان ‘‘ ( 23 مارچ) ’’ یوم آزادی ‘‘ (14 اگست) ’’مصّور پاکستان‘‘علامہ اقبالؒ اور ’’ بانی ٔ پاکستان‘‘ حضرت قائداعظمؒ کے ایام ِ ولادت و وفات اور کئی دوسرے مواقع پر ، صدر مملکت ، وزیراعظم اور مختلف سیاستدانوں کی طرف سے اپنے پیغامات اور خطابات میں کہا جاتا ہے کہ ’’ قیام پاکستان کے لئے مسلمانوں نے ، بہت سی قربانیاں پیش کی ہیں‘‘اور حقیقت بھی یہی ہے !۔ تحریک ِ پاکستان کے دَوران ہندواور سِکھ دہشت گردوں نے 15 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کردِیا تھا ۔ بھارتی پنجاب میں 10 لاکھ مسلمانوں کا قتل عام ہُوا اور 55 ہزار مسلمان عورتوں کو اغواء کر کے اُن کی آبرو ریزی کی گئی۔ بھارتی پنجاب کی سِکھ ریاستوں ۔ نابھہ ؔ ، پٹیالہؔ اور ضلع امرتسرؔ میں ، میرے خاندان کے بھی 26 افراد (زیادہ تر ) سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہُوئے۔ میرے والد صاحب ’’تحریک ِ پاکستان ‘‘ کے (گولڈ میڈلسٹ ) کارکن رانا، فضل محمد چوہان ’’ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے "National Guards"کو لٹھ بازی سکھایا کرتے تھے ۔ قیام ِ پاکستان کے فوراً بعد جب، مسلم ریاست مالیر کوٹلہ کے نواب کے فوجی دستے کی حفاظت میں دو اڑھائی سو مسافروں ( مہاجروں) کی ٹرین قصور کے لئے روانہ ہُوئی تو ہمارا خاندان بھی اُس ٹرین میں سوار تھا ۔ راستے میں ہر ریلوے سٹیشن پر کرپانیں لہراتے اور ’’ست سری اکال، جو بولے سونیہال‘‘ کے نعرے لگاتے ہُوئے سِکھوں نے ٹرین کو روکنے کی کوشش کی لیکن، ٹرین کے محالفظ دستے کی فائرنگ سے اُن کی ٹرین پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہُوئی۔ فیروز ریلوے سٹیشن سے 4 میل دور قصور سے پہلے ٹرین کی پٹڑی اُکھاڑ دِی گئی تھی۔ ٹرین کے سارے مسافروں کو کھلے میدان میں اُترنا پڑا۔ اِس سے پہلے کہ کھلے میدان میں سکھوں کا جتھا حملہ کرتا کہ اچانک ٹرکوں پر سوار ’’ بلوچ رجمنٹ‘‘ (Baloch Regiment) کے افسران اور جوان ’’ نعرہ ٔ تکبیر ۔ اللہ اُکبر‘‘ کی گونج میں وہاں پہنچ گئے اور اُنہوں نے سارے مسافروں کی جان بچا لی۔ ہجرت کے بعد ہمارا خاندان سرگودھا میں آباد ہُوا ۔ میرے والد صاحب کی کتابوں کی دکان تھی۔ وہ مجھے میلاد شریف کی محفلوں میں لے جاتے تھے ۔ مَیں نے 1956ء میں میٹرک پاس کِیا اور اردو زبان میں پہلی نعت لکھی۔ 1960ء میں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں بی ۔ اے فائنل کا طالبعلم تھا جب ، مَیں نے ’’مسلک صحافت ‘‘ اختیار کِیا ۔مَیں 1965-1964 ء میں جنابِ مجید نظامی کے روزنامہ ’’ نوائے وقت ‘‘ کا نامہ نگار رہا ۔ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے مقابلے میں ، مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں ۔مَیں نے سرگودھا کے علاوہ پنجاب کے کئی شہروں میں ’’ مادرِ ملّت ‘‘ کو صدر ایوب کو للکارتے ہُوئے دیکھا اور سُنا۔ مَیں نے ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران پاک فوج کی شان میں دو ملّی ترانے لکھے۔ ایک ترانہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہُوا اور دوسرا ’’محکمہ تعلقات عامہ مغربی پاکستان ‘‘کی شائع کردہ ضخیم کتاب میں شائع ہُوا۔مَیں نے 1962ء میں قائداعظمؒ کی شان میں پہلی نظم لکھی ۔ اُس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا ۔ مَیں 1970ء میں لاہور شِفٹ ہوگیا۔ 11 جولائی 1973ء کو لاہور سے روزنامہ ’’ سیاست ‘‘ جاری کِیا اور 25 دسمبر 1973ء کو ’’سیاست‘‘ کے خصوصی اشاعت میں شائع ہونے والی میری نظم کے تین شعر یوں ہیں … نامِ محمد مصطفیٰؐ نامِ علی ؑ عالی مقام! کِتنا بابرکت ہے ، حضرت قائداعظمؒ کا نام! …O… سامراجی مُغ بچے بھی ، اور گاندھی کے سپُوت ! ساتھ میں رُسوا ہوئے، فتویٰ فروشوں کے اِمام! …O… یہ ترا اِحسان ہے ، کہ آج ہم آزاد ہیں! اے عظیم اُلشان قائد! تیری عظمت کو سلام! …O… معزز قارئین!۔ روزنامہ ’’ نوائے وقت‘‘ میں میری کالم نویسی کا پہلا دَور مئی 1991ء سے ڈیڑھ سال تک جاری رہا ۔ دوسرا دَور جولائی 1991ء سے جون 1999ء تک اور تیسرا دَور اگست 2012ء سے مارچ 2017ء تک۔ مَیں نے ، اُس دَور میں جنابِ نظامی سے بہت کچھ سیکھا ۔جنابِ مجید نظامی ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے چیئرمین تھے ۔ ’’ ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان‘‘ لاہور میں منعقدہ تقاریب کے آغاز یا اختتام کے بعد وہ اپنے کمرے کے بجائے سیکرٹری ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید کے کمرے میں بیٹھتے ۔ وہاں مجھے اُن سے بہت زیادہ قُربت رہی۔ مَیں نے جناب مجید نظامی کی شخصیت اور قومی خدمات پر کئی نظمیں لکھیں ۔ 3 اپریل 2014ء کو اُن کی 86 ویں سالگرہ پر بھی ۔ جس کا ایک بند ہے … خُوشا! مجِید نظامی کی برکتیں ہر سُو! ہے فکرِ قائدؒ و اقبالؒ کی نگر نگر خُوشبُو! اثر دُعا ہے کہ ہو ارضِِ پاک بھی شاداب! چمک رہا ہے صحافت کا مہرِ عالم تاب! …O… معزز قارئین !میرے والدین کی دُعائوں سے مجھے ، میرے پاکستان نے بہت کچھ دِیا۔ مجھے صحافی / کالم نویس کی حیثیت سے پاکستان کے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا کے رُکن کی حیثیت سے آدھی دُنیا دیکھنے کا موقع مِلااور میرا حاصلِ زندگی یہ ہے کہ ’’ مجھے 1991ء میں صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے ، اُن کے ساتھ خانہ ٔ کعبہ کے اندر داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی اور دوسرا یہ کہ ’’ 1980ء میں ، میرے خواب میں میرے جدّی پشتی پیر و مُرشد ، خواجہ غریب نواز حضرت معین اُلدّین چشتی ؒ میرے گھر تشریف لائے اور پھر جون 2004ء میں اجمیر شریف میں اُن کی بارگاہ میں حاضری دِی۔ ماشاء اللہ میرے پانچوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہُنر مند بیٹے اپنے اہل و عیال سمیت با عِزّت امریکہ ، برطانیہ اور دُبئی میں "Settle" ہیں ۔ کاش اُن فرزندانِ پاکستان کو وطن عزیز ہی میں با عزّت زندگی گزارنے کا موقع مل جاتا ؟ ۔ مَیں تو پاکستان میں اپنے پیاروں کی قبروں کا مجاور ہُوں ۔ مَیں تو چاہتا ہُوں کہ مجھے بھی پاکستان ہی میں قبر نصیب ہو!۔ 15 جنوری 1999ء کو میرے والد صاحب کا انتقال ہُوا تو، مَیں نے اپنے ، پردادا رانا محکم ؔخان چوہان ، دادا رانا عبداُلرحیم ؔخان چوہان اور اپنے والد صاحب ۔ رانا فضل ؔمحمد چوہان کے ناموں سے ایک مصرعہ تخلیق کِیا اور نظم لِکھی ، جِس کے دو بند ہیں … بندۂ اِیمان و اِیقان! مَرد جَری ، مردِ مَیدان! صاحب عظمت ،صاحب شان! فضل رحیم ، محکم خان! …O… خاک پائے ، شاہِؐ مدینہ! یادِ علی ؑسے رَوشن سِینہ! خواجہ چشتی ؒ سے فیضان! فضل رحیم ، محکم خان! …O… معزز قارئین! میں اکثر اپنے کالم میں لکھتا ہُوں کہ ’’ میرے والد صاحب ’’لٹھ باز ‘‘ تھے ۔ مَیں لٹھ باز نہیں ہُوں لیکن، ’’قلم باز ‘‘ ہُوں اور تحریکِ پاکستان کے مخالفین ، خاص طور پر کانگریسی مولویوں کی باقیات پر ’’ قلم بازی‘‘ خوب کرنا جانتا ہُوں۔مَیں نے برادرِ عزیز شاہد رشید کی فرمائش پر 20 فروری 2014ء کو ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان میں چھٹی سالانہ ’’نظریۂ پاکستان کانفرنس ‘‘ کے لئے ملی ترانہ لکھا جِس پر، جنابِ مجید نظامی نے مجھے ’’ شاعرِ نظریہ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا۔ ملی ترانے کے دو شعر نذر قارئین ہیں … پیارا پاکستان ہمارا، پیارے پاکستان کی خَیر! پاکستان میں رہنے والے ، ہر مخُلص اِنسان کی خَیر! …O… خِطّۂ پنجاب سلامت، خَیبر پختوں خوا ، آباد! قائم رہے ہمیشہ ، میرا ، سِندھ ، بلوچستان کی خَیر! …O… معزز قارئین!۔ صدر آصف علی زرداری کے دَور میں 50 فی صد اور وزیراعظم نواز شریف کے دَور میں 60 فی صد لوگ مفلوک اُلحال تھے ۔ حسن اتفاق سے ؟ سے باہمی اتفاق سے اب دونوں قائدین وزیراعظم عمران خان اور اُن کی حکومت کے خلاف ، ’’ مَیں تے ماہی ، اِنج مِل گئے ، جیویں ، ٹِچ بٹناں دِی جوڑی‘‘ ۔کی پوزیشن میں ہو جائیں گے لیکن، ناکام ہوں گے ۔ قائداعظمؒ کے پاکستان میں اب ، مفلوک اُلحال عوام اپنے حقوق حاصل کئے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ میری دُعا ہے کہ ’’ کل (13 اگست کو) قومی اسمبلی کے ایوان میں کپتان عمران خان نے جو سفیدشلوار ، کُرتا پہنا ہُوا تھا ، کہیں اُسے کوئی داغ نہ لگ جائے؟۔