میں سوچتا ہوں کہ قائداعظم محمد علی جناح کا سب سے بڑا کارنامہ کیا تھا؟ میرا جواب یہ ہے کہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی شخصیت تھی۔ بیسویں صدی میں نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ عالمی سطح پر وہ ایک منفرد و ممتاز لیڈر تھے۔ اس وقت کے سیاسی افق پر جتنی چاہیں نظر دوڑائیں آپ کو قائداعظم کے پائے کا کوئی سیاست دان یا مدبر کہیں دکھائی نہ دے گا۔ 20 ویں صدی کے اوائل میں مسلمانان ہند میں بعض بہت ممتاز شخصیات تھیں۔ علمی فضیلت میں مولانا ابوالکلام آزاد ممتاز تھے اور مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری شہنشاہ خطابت تھے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی دور جدید میں عصری تقاضوں کے مطابق دین کی دعوت نئے اسلوب و آہنگ میں پیش کر رہے تھے مگر ہندوستانی مسلمانوں کے مسئلے کا حل اگر کوئی سب سے پہلے سمجھا تو وہ علامہ اقبال تھے۔ قائداعظم علامہ اقبال کے قدر شناس اور مداح تھے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم دونوں آزاد انڈیا میں مسلمانوں کے مستقبل کو محفوظ مامون بنانے کے لیے بے تاب و بے قرار تھے۔ آغاز میں تو دونوں رہنما کشور ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں رہے مگر ہندو کی فطرت سے گہری آشنائی کے باعث علامہ اقبال نے 1930ء میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کو ناگزیر گردانا۔ اگرچہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کی کئی ملاقاتیں لاہور اور لندن میں ہوئیں، دونوں کے درمیان خط و کتابت بھی ہوتی رہی مگر قائداعظم کانگریسی رویے سے بیزار ہونے کے باوجود مایوس نہ ہوئے۔ ہیکٹر بولیتھو کی تحقیق کے مطابق قائداعظم نے علامہ اقبال کے علیحدہ وطن کے وژن کو علامہ کے خطبہ الٰہ آباد کے کئی برس بعد دل و جان سے قبول کرلیا اور پھر 23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک میں قرار داد لاہور کے تاریخی موقع پر کہا کہ اگر آج علامہ اقبال زندہ ہوتے تو وہ بچشم خود دیکھتے کہ ہم نے وہی کیا جو ان کا وژن تھا یعنی مسلمانان ہند کے لیے علیحدہ وطن۔ اس تاریخی اعلان کے بعد قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے وہ تحریک پاکستان چلائی جس کی سیاسی تاریخ میں کم کم ہی مثال ملتی ہے کہ صدیوں کی غلامی کی زنجیریں سات سالہ تحریک نے توڑ ڈالی ہوں اور اپنا ایک آزاد وطن حاصل کرلیا ہو۔ پنڈت جواہر لال نہرو خوبصورت الفاظ کے طوطے مینا اڑانے میں بہت دلچسپی رکھتے تھے جبکہ قائداعظم کی نظر ہمیشہ الفاظ کے پیچھے موجود قانونی حقیقت پر مرکوز رہتی تھی۔ اس لیے بارہا نہرو اور گاندھی نے قائداعظم کو الفاظ و تراکیب کی جادوگری سے شیشے میں اتارنے کی کوشش کی مگر قائد کے سامنے ان کی کوئی کارگری کام نہ آ سکی۔ اب آ جائیے ذرا آج کے پاکستان پر۔ قائداعظم نے جن باتوں پر زور دیا اور ان کی پابندی کی تلقین کی ہم نے ان میں سے کسی نصیحت پر کان نہیں دھرے۔ قائداعظم نے مضبوط معیشت، امیر غریت کے لیے عدل و انصاف، سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی عدم مداخلت پر زور دیا اور کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا۔ ہم نے اس کے برخلاف کیا۔ قائداعظم نے قول سدید یعنی کھری اور سچ بات کہنے اور سوچ سمجھ کر کہنے اور پھر اس پر ڈٹ جانے کی بھی نصیحت کی۔ قائداعظم فرمایا کرتے تھے وہ 99 بار سوچتے ہیں اور پھر 100 ویں بار بولتے ہیں۔ یہی وجہ ہے انہیں یاد رہتا تھا کہ انہوں نے فلاں بات کب کہی تھی۔ کہے ہوئے الفاظ میں تبدیلی کی گنجائش نہیں ہوتی تھی، تقریر کے دوران عوام کے جوش و خروش سے کبھی متاثر ہوتے نہ ہی آپے سے باہر ہو کر اپنا توازن بگاڑتے۔ ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ پتھر پر لکیر ہوتا تھا۔ آج کے وزیراعظم عمران خان اپنے آپ کو قائداعظم کا سیاسی پیروکار کہتے ہیں مگر صبح کچھ کہتے ہیں اور شام کچھ۔ بولتے پہلے ہیں سوچتے بعد میں ہیں۔ جب ان کے یوٹرن حد سے بڑھے تو انہوں نے اس کا ایسا تریاق دریافت کیا جو عملی سیاست میں میکاولی سے بھی آگے بڑھ گیا۔ خان صاحب نے کہا کہ ہر بڑا لیڈر یوٹرن لیتا ہے۔ قائداعظم کی زندگی میں کہیں کہیں ریویو تو ملتا ہے مگر یوٹرن معدوم ہے۔ قائداعظم نے اسٹیبلشمنٹ کے لیے سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دیا تھا مگر وطن عزیز میں ایک بار نہیں چار بار مارشل لاء لگایا گیا۔ جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے اس سلسلے میں ہمارے حکمران اور سیاسی قائدین، ان دنوں زبانی احتجاج بھی نہیں کرتے۔ ابھی تک پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی نہیں بن سکی۔ آج کشمیر میں جو تحریک مزاحمت چل رہی ہے وہ خالصتاً کشمیری تحریک ہے۔ اس میں نہ کوئی ’’بیرونی جہادی‘‘ ہے اور نہ ہی نہتے کشمیریوں کو کہیں سے کوئی مالی امداد ملتی ہے۔ قائداعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو سیکولر حضرات اپنی مطلب براری کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس تقریر میں قائداعظم نے واضح کر دیا کہ پاکستان ایک اسلامک نہیں سیکولر سٹیٹ ہو گی۔ 11 اگست کی قائداعظم کی تقریر روز روشن کی طرح واضح ہے۔ اس تقریر میں دو باتوں پر زبردست فوکس تھا۔ ایک یہ کہ پاکستان کو کرپشن، رشوت ستانی اور اقربا پروری سے پاک ہونا چاہیے اور دوسرے اقلیتوں کو یقین دہانی کروائی گئی کہ پاکستان میں انہیں ریاست کے ہر شہری کے برابر حقوق حاصل ہوں گے اور ان کے ساتھ ہرگز ہرگز ناانصافی نہ ہوگی۔ اس سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ سات سالہ تحریک پاکستان اور پھر قیام پاکستان کے بعد کم وبیش 101 مرتبہ قرآن و سنت کو پاکستان کا آئین قرار دینے والے صادق و امین لیڈر نے یوٹرن لے لیا ہوگا۔ قائد کی 11 اگست سے پہلے اور 11 اگست کے بعدوالی تقاریر اوربیانات کو دیکھیں تو یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ اسلام کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی اور اسلامی دستور کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ میں سرمو کمی نہ آئی حتیٰ کہ زیارت میں شدید بیماری کے بعد بھی انہوں نے اسلامی دستور کی تشکیل اور تنفیذ کے بارے میں اپنی بے قراری کا اظہار کیا۔ قائداعظم محض ایک سیاست دان ہی نہ تھے بلکہ وہ ایک مدبر اور مربی بھی تھے۔ وہ سیاست کے ساتھ ساتھ قوم کی بھرپور تربیت بھی کرتے رہے۔ وہ جھوٹ بول کر یا رشوت دے کر ووٹ حاصل کرنے کی بھرپور مذمت اور مخالفت کرتے تھے۔ تحریک پاکستان کے دوران لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار ہوتے تاہم اگر اس مقام پر رکنے کا پروگرام نہ ہوتا تو قائداعظم اپنی ٹرین کے ڈبے سے باہر نہ آتے اور فرماتے کہ میں ڈسپلن کے معاملے میں کوئی کمپرومائز نہ کروں گا۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد مسلم لیگ نے قائداعظم کی ساری نصیحتوں کو بھلا کر انتخابی کرپشن سے لے کر مالی کرپشن تک کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور آج کرپشن اپنے نقطہ عروج کو پہنچ گئی ہے۔ آج 24 دسمبر 2018ء کو اسلام آباد میں تین بار وزیراعظم بننے والے میاں نوازشریف کو نیب کورٹ میں کرپشن ریفرنسز پر فیصلے کی گھڑی کا انتظار ہے جبکہ سپریم کورٹ میں سابق صدر آصف علی زرداری اربوں روپے کی منی لانڈرنگ اور بینکوں میں بے نامی اکائونٹس کے مقدمات کا سامنا ہے۔ جہاں ان کے وکلاء پیش ہوں گے۔ حکمران جماعت پی ٹی آئی کے اپنے اندر بھی کئی رہنما کرپشن کے مقدمات و الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ جو بھی ہے قائداعظم کا پاکستان ہرگز نہیں۔ آج صرف ایک سیاسی جماعت ایسی ہے جس کا کوئی لیڈر یا کارکن نیب یا کسی اور ادارے میں کرپشن کے کسی مقدمے کا سامنا نہیں کر رہا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے جماعت اسلامی کی بنیاد ہی دیانت وامانت، حسن کردار اور تربیت نفس پر رکھی ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو جماعت اسلامی ہی قائداعظم کی سیاسی تعلیمات کی حقیقی وارث ہے مگر آج کے پاکستان میں اکثر ووٹر امانت و دیانت کو نہیں پروپیگنڈے کو ووٹ دیتے ہیں۔