فروری کے اکیسویں روز کی دوپہر ہے، آم کے تین پیڑ ہیں،جن کے قدموں میں سبزے کا فرش ہے اور پتوں کو چھیڑتی وہ ہوا جو بہار کے کاروان کا ہراول ہوا کرتی ہے۔ایسے میں وہاں موت کی بو رچی ہے۔ پتہ نہیں مرنے والے کو وہ بو کیسی لگتی ہے مگر زندگی جیتے لوگ اس بو کو شامہ کی قوت سے نہیں دلوں کے بوجھل پن سے محسوس کرتے ہیں۔ قلوب کو بھاری اور مکدّر کرتی ہوئی بو۔ بارہ فروری کی خنک شب کو گھر کے سامنے جو پارک آپ مجھے دکھا رہے تھے کہ اب یہاں جوگنگ ٹریک بن گیا ہے، اس پارک کے حاشیہ پر یہاں سے وہاں تک گاڑیاں ہی گاڑیاں ہیں۔ ہاؤس نمبر بی ایٹ کے پہلو میں گیراج کے ساتھ جو پچھلے صحن کو راستہ جاتا ہے اور جہاں ملازم کا چھوٹا سا کوارٹر بھی بنا ہے۔ وہ کوارٹر جہاں کوئی ملازم نہیں رہتا، کچھ ہے تو رسائل کی فائلیں اور کتابوں کے ردّے۔ یا پھر وہ ناٹے قد کا پیڑ جو گریپ فروٹ سے لدا ہوا ہے۔ جہاں بارہ فروری کی شب آپ نے بتایا تھا کہ اب میں انتظامی ذمہ داریوں سے کنارہ کش ہوگیا ہوں۔ اب لکھوں گا۔ کچھ ناولوں کے پلاٹ تھے آپ کے پاس جن پر تعمیر کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے اس راستے سے کوئی لکڑی کا تختہ لئے جاتا تھا اور کوئی چارپائی۔کوئی شاپر میں نیم کے پتے ڈالے لپکتا تھا۔ کسی کے ہاتھ میں سفید کپڑا تھا اور کسی نے شاپر میں پھولوں کی پتیاں بھر رکھی تھیں۔ میں گیراج کے پہلو میں بیٹھا سب دیکھتا رہا۔ جانتا تھا کہ زمین کے سینہ پر آپ کے آخری غسل کی تیاریاں ہو رہی ہیں مگر میں اْدھر جانے کی ہمت نہ کر پایا۔جس گھر میں ابھی ایک ہفتہ پہلے آپ کو چلتے پھرتے اپنی لائبریری کا تعارف کراتے دیکھا، وہاں آپ کے اس لباسِ خاک کو دوسروں کے ہاتھوں دھُلتا کیونکر دیکھتا۔ پھر کافی دیر بعد جب آپ کے سبھی شاگرد اور دوست اندر چلے گئے تو میں نے بھی ہمت استوار کی۔ تب آپ کو سفید لباس میں لپیٹ کر ایک باریش شخص کافور چھڑکتا تھا اور پھر اس نے عطر کی ایک پوری شیشی آپ کے سفید ملبوس پر خالی کردی تھی۔یہ سارے حربے شاید موت کی ناگوار بو کا مقابلہ کرنے کو بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ ایک بڑا عالم رخصت ہورہا تھا۔ روز بروز قدر کھوتی ہوئی کتابوں کا قدر دان، علم کا متلاشی اور علم بانٹنے والا۔ مہد سے لحد تک حصولِ علم والی کہاوت کی چلتی پھرتی تصویر۔ وہ جس کے بے شمار شاگردوں میں ہر ایک کو یہی فخر کہ استاد سب سے زیادہ توجہ اسے ہی دیتے تھے۔ جب بھی آپ سے ملا، آپ نے خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔ انور سن رائے کی’’ذلتوں کے اسیر‘‘اور شبیر احمد کی’’ہجورآما‘‘ ابھی بھی میرے سرہانے ہے۔ مؤخرالذکر پر آپ کے دستخط کے ساتھ بارہ فروری کی تاریخ درج ہے۔ وہی بارہ فروری جب نیم خنک شب آپ نے اسی گھر میں پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا تھا۔ آپ نے اپنی شاگرد سے کہا تھا ڈاکٹر بن کے اب پڑھنا چھوڑ نہیں دینا۔کتاب سے تعلق ہمیشہ استوار رکھنا۔ملازمت، گھر، بچوں کی مصروفیت سے وقت نہ ملے تو دو گھنٹے نیند کم کر لینا لیکن مطالعہ ضرور کیا کرنا۔ وہی بارہ فروری جب آپ نے کہا تھا دو تین موضوعات ہیں جن کو ابھی تک چھیڑا نہیں گیا، ان پر ناول شروع کر رہا ہوں۔ وہی بارہ فروری جب اپنی کچھ ان کتابوں کا ذکر کیا جو تکمیل کے قریب تھیں۔ جب آپ نے زہرا کو جرمنی جا کے پڑھنے کی ترغیب دی تھی اور مجھے کہا تھا بٹیا کو روکنا نہیں جانے سے، انہیں اپنی دنیا آپ تعمیر کرنے دیں۔ جب آپ نے تین کمروں میں پھیلی اپنی لائبریری دکھائی تھی۔گیسٹ روم کی شیلفوں میں ایک پر ’’ٹاہلی والا لیٹر بکس‘‘ سطروں سے باہر رکھی تھی۔ بھابھی محترمہ نے مسکراتے ہوئے مجھے یہ کتاب دکھائی۔ آپ نے کہا تھا ’’تقریب میں گفتگوکے لیے نکال رکھی ہے‘‘۔یہ تقریب اب کبھی نہ ہو سکے گی قاضی صاحب… پتہ نہیں آپ کو کیا جلدی تھی۔ شاید اللہ کے ہاں قرض بہت بڑھ گیا تھا سو ادائی کے لئے طلب کر لیا گیا۔کتنے ہی شاگرد تھے جن کی ضرورتیں آپ چپکے چپکے پوری کرتے تھے۔ جب آپ دھرتی کی گود میں اترنے کے لیے گھر کے پچھلے صحن میں تختے پر لیٹے غسل کر رہے تھے تو پارک کے حاشئے پر بچھی کرسیوں پر یونیورسٹی کے درجہ چہارم کے کچھ اہلکار سر جھکائے بیٹھے تھے۔ کچھ اس ہاسٹل کے تھے جس کے آپ کبھی سپرنٹنڈنٹ رہے اور کچھ شعبہ جات سے۔ ان کی آوازیں بوجھل تھیں اور نم آلود۔ آپس میں حال بانٹتے تھے کہ بیماری یا بہن، بیٹی کی شادی کے لئے جب بھی صاحب کو چھٹی کی درخواست دی، کبھی خالی چھٹی نہ ملی۔ بیماری کے لیے دوا اور شادی کی صورت میں سلامی کے لئے کچھ نہ کچھ ساتھ ضرور دیتے۔ وہ جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے، وہ رکوع و سجود سے، روزہ و حج سے راضی ہوتا ہوگا لیکن مقروض نہیں ہوتا۔ اس پر قرض چڑھانے کا راستہ مخلوق کی خدمت سے نکلتا ہے۔ مجلسِ نبوی آراستہ تھی جب یہ آیت اتری ’’اور اللہ کو قرض حسنہ دیتے رہو۔ جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آ گے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاؤ گے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔‘‘ جناب ابوالدحداحہ ؓنے عرض کیا ’’یارسول اللہ..! اللہ ہم سے قرض مانگتا ہے حالانکہ وہ ذات تو قرض سے بے نیاز ہے۔‘‘ فرمایا ہاں اللہ ہی قرض مانگتا ہے، اس کے بدلے میں وہ تمہیں جنت میں داخل کر دے گا۔ یہ لباسِ زیست اتار پھینکنے کے دن تو نہ تھے قاضی صاحب۔اچھا،جو اس کی مشیت کو منظور۔ پروفیسر ڈاکٹر قاضی عابد جیسا عالم نہیں رہا تو بالشتئے کیا ہمیشگی لکھوا کر آئے ہیں؟ سب کو جانا ہے ایک دن۔ سوچیں تنگ کرتی ہیں تووہاں سے اٹھ کر مشرق کی جانب اس چھوٹے سے چوراہے پر آن کھڑا ہوا ہوں جہاں بی سکس کے سامنے آم کے تین پیڑ پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں جن کے سائے میں سبزے کا فرش ہے۔ آمدِ بہار کی خبر لانے والی ہوا آموں کے پتوں کو جھْلاتی ہے اور میں سوچتا ہوں، قاضی عبدالرحمان عابد...! یہ کوئی جانے کے دن تھے بھلا جب جاڑے کی سختیاں ختم ہو رہی تھیں اور بہار کی آمد آمد تھی۔