دینی اور روحانی اہمیت کے حامل،وہ چند معتبر گھرانے، جن کی محبتیں مجھے آبائی طور پر ورثے میں میسر آئیں،ان میں ایک اہم ترین خانوادہ۔۔حضرت محدّثِ اعظم پاکستان مولانا ابوالفضل محمد سردار احمد چشتی قادری رضوی ؒ کا ہے،جن کے نبیرۂ عُظمیٰ کی جلیل القدر ہستی اور آپؒ کے جانشینِ اوّل و سجادہ نشین صاحبزادہ قاضی محمد فضل رسول حیدر رضویؒ،دو روز قبل دنیائے فانی سے رحلت فرما کر،اپنے عظیم والدِ گرامیؒ کے پہلو میں آسودہ ہوگئے۔ آسمان اُن کی لحد پہ شبنم افشانی کرے سبزۂ نورستہ اُس گھر کی نگہبانی کرے صاحبزادہ قاضی محمد فضل رسول حیدرؒ انتہائی خلیق، تقویٰ و طہارت کے خوگر،اخلاص و للہیت کے پیکر،امانت و دیانت سے آراستہ اور دین و فقر کی اعلیٰ اقدار کے امین تھے،آپؒ قدوقامت،شکل و شباہت اور حُسن و جمال میں اپنے والدِ گرامی کا عکسِ جمیل اور بالخصوص اُن کی نسبتوں کو نبھانے والی حسین،خوبصورت اور دلآویز شخصیت تھے،آپ کا سب سے بڑا وصف اور کمال ہی یہی ہے کہ آپ نے اپنے والدِ گرامیؒ کے مشرب کو نہایت تندہی اوریکسوئی کے ساتھ اپنایا اور بحسن و خوبی نبھایا۔آپ کے والدِ گرامی حضرت محدّثِ اعظمؒ،جن کو فیصل آباد میں ظاہری حیات کے صرف آخری تیرہ سال میسر آئے،ان کے وصال کے بعد،ان کے وقیع علمی و دینی منصوبہ جات کی تکمیل کے لیے،ابتدائی طور پر جن مشکلات کا سامنا ہوا،ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے،آپ جیسا بلند ہمت اورپُر شکوہ فردِ عظیم ہی درکار تھا، چنانچہ حضرت محدثِ اعظم نے اپنی زندگی کے آخری مراحل یعنی1961کے سالانہ عرس کے موقع پر،آپ کو اپنی نیابت و خلافت سے سرفراز کیا۔نصف صدی سے زائد آپ اس عظیم مسند پر نہایت آب و تاب اور جمال و جلال کے ساتھ متمکن رہے ،’’جامعہ رضویہ‘‘جو اپنے تاریخ ساز علمی اور دینی کردار کے سبب،وطنِ عزیز میں انتہائی معتبر ومقام کا حامل ہوا، کی مینجمنٹ کے لیے’’جمعیت رضویہ‘‘تشکیل پائی،جس کے اولین صدر صاحبزادہ صاحبؒ قرار پائے،آپ نے جامعہ رضویہ کے تعمیراتی مراحل کو اپنی نگرانی میں پایۂ تکمیل تک پہنچا کر،اپنے برادرانِ خورد صاحبزادہ غازی محمد فضل احمدؒ اور صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم ؒ کو اس کی ذمہ داری تفویض فرمائی،اور یوں وہ’’جمعیت رضویہ‘‘کے بتدریج صدر اور سیکرٹری نامزد ہوئے،یہ بات میں بطورِ خاص اس لیے کر رہا ہوں کہ آج مدارس،مساجد اور خانقاہوں کی تولّیت، سجادگی اور سرپرستی کے حصول کے لیے کتنے ہی تصادم رُونما ہوتے اور کیسے کیسے المیے جنم لیتے ہیں،جس سے ادارے تباہ اور شخصیات کی ساکھ متاثر ہوتی ہے،حضرت صاحبزادہ صاحب نے دوسروں کو محروم رکھنے کی بجائے ان کو’’مین سٹریم‘‘میں شامل کرنے کی جو رسم اختیار کی،وہ آج ہمارے ان اداروں کے کار پردازان کیلئے روشنی اور راہنمائی کا باعث ہے۔حضرت صاحبزادہ صاحب نے آستانۂ محدّثِ اعظم کی تعمیر و ترقی کے لیے،خود کو پوری طرح یکسو رکھا،مزید یہ کہ آپ نے اپنے برادرِ اصغر صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم صاحبؒ،جنہوں نے جمعیت علمائے پاکستان اور ازاں بعد سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے اہلسنت کی قیادت کا فریضہ سرانجام دیا، کی بھرپور معاونت اور سرپرستی فرمائی۔حضرت صاحبزادہ قاضی فضل رسول حیدر صاحب بنیادی طور پر صوفیانہ مزاج کے حامل، اداروں سے چمٹے رہنے اور محافل و مجالس پہ مسلط ہونے سے کلیتاً بے نیاز،نہایت متوازن اور منکسر المزاج شخصیت کے مالک تھے،میرے جیسے عامی کے لیے بھی اپنے خاص نشست گاہ کے دَر وَا فرما دیتے،مجھے یاد نہیں،میں نے ان کی خدمت میں کبھی کوئی درخواست پیش کی ہو،اور انہوں نے اس کی پذیرائی نہ فرمائی ہو۔آپ بالعموم محافل اور تقریبات سے گریزاں رہتے،لیکن جب،معروف محقق اور سیرت نگار ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی کی شہرۂ آفاق تصنیف "المَدَائِحُ النَّبوِیّۃُ فِی باکستان و ھند" برصغیر پاک وہند میں عربی نعتیہ شاعری،کی اشاعت کا اہتمام مرکز معارف اولیاء داتا دربار سے ہوا،تو اس کی تقریب رونمائی میں،علالت کے باوجود تشریف فرما ہوئے۔آپ ایک ایسی اولوالعزم اور جلیل القدر شخصیت کے زیرسایہ پروان چڑھے تھے،جنہوں نے اس خطّے میں بدعقیدگی کا تدارک کرتے ہوئے،محبت و عشقِ رسول ﷺ کے ولولوں اور جذبوں کو فراواں کر کے شیخ عبدالحق محدّثِ دہلویؒ،مولانا فضل حق خیر آبادیؒ اور بالخصوص اعلیٰ حضرت مولانا الشاہ احمد رضا قادریؒ،فاضلِ بریلوی کے افکار ونظریات کی نہایت مؤثر پیرائے میں ترویج وتبلیغ فرمائی۔آپ کے والدِ گرامی ؒ حضرت محدّثِ اعظم مولانا محمد سردار احمدؒ۔۔۔ گذشتہ صدی کے نصف آخر کی ایسی مؤثر ترین شخصیت تھی۔ حضرت محدّثِ اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد قدس سرہ 1905ئ،موضع دیال گڑھ ضلع گورداسپور (مشرقی پنجاب ، انڈیا) ،سیہول،جٹ گھرانے میں پیدا ہوئے،خاندانی پیشہ زمینداری اور کاشتکاری تھا۔ پرائمری تعلیم کے بعد،اسلامیہ ہائی سکول بٹالہ ضلع گورداسپور میں داخلہ لیا،میٹرک کا امتحان جو ان دنوں پنجاب یونیورسٹی کے تحت ہوتا تھا، فرسٹ ڈویژن میں پاس کرنے کے بعد،اپنے شیخِ طریقت ، حضرت شاہ سراج الحق چشتیؒ کی پیروی میں پٹوار کا امتحان پاس کیا،ایف۔اے کا امتحان دینے کے لیے لاہور آئے،یہاں امتحان کی تیاری میں مصروف تھے کہ انہی دنوں انجمن حزب الاحناف کے سالانہ جلسے کا مسجد وزیر خان میں اہتمام تھا، دینی ذوق کے سبب جلسہ میں حاضری دی،صدر الافاضل علامہ سیّد نعیم الدین مرادآبادی نے اپنی تقریر کے دوران،اعلیٰ حضرت الشاہ احمد رضا خان بریلویؒ کے نورِ نظر،حجۃ الاسلام مولانا الشاہ حامد رضا خان کی بریلی سے لاہور تشریف آوری کا جو اعلان کیا تو دید کا شوق فراواں ہوا،زیارت سے قلب و نظر میں انقلاب پیدا ہوا، امتحان چھوڑ کر،آپ کی ہمراہی میں رختِ سفر باندھ لیا،اور بریلی کے دارالعلوم جامعہ رضویہ منظرالاسلام میں 1925تا 1927ء اکتسابِ علم کیا،ازاں بعد صدر الشریعہ مولانا محمد امجد علی اعظمی کے،دارالعلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف میں تلمیذِ خاص رہے اور بقول مولانا مصطفی رضا خاں’’بحر العلوم کے پاس گئے تھے اور خود بھی بحر العلوم ہوگئے‘‘،درسِ نظامی کے زبانی امتحان(Viva) کے لیے مولانا فضل حق رامپوری جو بالخصوص معقولات پر بھرپور ملکہ کے حامل تھے،مولانا محمد سردار احمد صاحب کی ذہانت اور قابلیت پر خوش اور علمی ذوق پر متحیر ہو کر فرمانے لگے،اس قسم کے طلبہ اس زمانے میں نایاب ہیں۔ لیکن : قدرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی 1933ء میں آپ دورۂ حدیث سے فیضیاب ہوئے۔ درسیات سے فراغت کے ساتھ ہی،آپ،اپنی مادرِ علمی دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی میں منصبِ تدریس پر فائز ہوگئے۔رمضان المبارک 1366ھ /اگست 1947ء ، رمضان المبارک کی تعطیلات کے دوران آبائی گاؤں دیال گڑھ ضلع گورداسپور میں ہی پاکستان بننے کی نوید سُنی،حقائق کے برعکس مسلم اکثریت کا یہ ضلع انڈیا میں شامل ہونے سے فسادات اور تصادم سنگین ہوگیا۔اہل و عیال کے ہمراہ ہجرت فرماتے ہوئے، ابتداء ً لاہور،پھر بھکی شریف اور قصبہ ساروکی ضلع گوجرانوالہ میں مختلف اور مختصر قیام کے بعد مفتی اعظم مولانا شاہ مصطفی رضا خان بریلوی کی تائید سے فیصل آباد، جو اس وقت لائل پور تھا،میں قیام فرما کر،جولائی 1949ء ، شوال المکرم 1368ھ’’جامعہ رضویہ مظہر الاسلام‘‘کا آغاز فرمایا۔حضرت محدّثِ اعظمؒ پاکستان کا وصال یکم شعبان 1382ھ/ 29دسمبر 1962ء کو ہوا۔