ایک مغربی دانشور نے کتنے پتے کی بات کی تھی کہ قوموں کو اپنے زوال شروع ہونے کا پتہ نہیں چلتا۔جس طرح کسی شخص کی آنکھ لگ جاتی ہے؛ اسی طرح قوموں کو بھی نیند آجاتی ہے۔ جس طرح بے سبب آنکھ نہیں لگتی؛ اس طرح قومی زوال کے بھی اسباب ہوتے ہیں۔ قومی زوال اچانک نہیں آتا۔ قومی زوال تاریخ کے بطن میں پلتا رہتا ہے۔ قوم کے زوال کا سفر چلتا رہتا ہے۔ قوم کو اس وقت محسوس ہوتا ہے جب اقوام عالم انہیں اطلاع دیتی ہیں کہ اب اس کی حیثیت وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔ اقوام عالم جب آئینہ بن کر سامنے آتی ہیں؛ تب کسی قوم کو اپنی تباہی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اس سلسلے میں علامہ اقبال نے کتنی خوبصورتی سے یہ بات کہی تھی : ’’قافلے کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا‘‘ جب زیاں کا احساس نہیں ہوتا تو پھر زوال یقینی بن جا تا ہے۔ قوم بھی تاریخ کی راہ پر کسی قافلے کے طرح چلتی ہے۔ جس طرح قافلہ اپنے قائد کے نقش پا پر چلتا ہے۔ جس طرح کارواں میر کارواں کے پیچھے سفر کرتا ہے؛اسی طرح قوم بھی ہوتی ہے۔ قوم کے دل میں یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کا قائد انہیں کبھی دھوکہ نہیں دے گا۔ وہ انہیں اس منزل تک لے جائے؛ جس منزل کا اس نے وعدہ کیا ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ قافلے صرف اپنے قائد کی غداری اور موقعہ پرستی کے باعث تاریخ کے حقیقی راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔ اس لیے قومی قیادت کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح اپنا قدم غلط سمت میں نہ رکھے۔ ایسا کرنے سے قوم کا پورا قافلہ حقیقی راستے سے بھٹک جاتا ہے۔ پاکستان کے پاس کیا نہ تھا مگر سرد جنگ کے بعد پاکستان اس قیادت سے محروم ہوگیا؛ جس قیادت کا دل گرم اور ہاتھ صاف ہوتے ہیں۔ وہ قیادت اصولوں پر کبھی سمجھوتے بازی نہیں کرتی۔اس کو دنیا کا کوئی سکہ تو کیا کوئی بھی خوف اور لالچ اپنے ارادے سے نہیں ہٹا سکتا۔ اس لیے ہم نے جن قوموں بھی تاریخ میں سرفراز دیکھا ہے ان کی کامیابی کا سبب یہی رہا ہے کہ وہ اپنے اصولوں سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ ایک قائد اور ایک قومی رہنما کے لیے کیوں ضروری ہوتا ہے کہ وہ تاریخ کی عظیم شخصیات کی زندگیوں کا بغور مطالعہ کرے؟اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ جانے کہ ایک فرد کی استقامت اور بااصول سفر کے باعث کس طرح پوری قوم تاریخ کے صحرا میں نہیں بھٹکتی۔ تاریخ تو ایک کسوٹی ہے۔ ہم اس کسوٹی پر برے اور بھلے کو پرکھ سکتے ہیں۔ ہم اس کسوٹی پر کھرے اور کھوٹے کو پرکھ کر سکتے ہیں۔ ہمارے دور کا المیہ یہ ہے کہ نہ صرف خالص سونا عدم دستیاب ہے بلکہ سونے کوپرکھنے والی کسوٹی میں بھی ملاوٹ کی گئی ہے۔اس لیے ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہو پاتا کہ اصل اور نقل میں کیا فرق ہے؟ قومی وجود کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ قومی وجود کسی ایک عنصر سے پیدا نہیں ہوتا۔ قومی وجود مختلف عناصر کی ترکیب سے پیدا ہوتا ہے۔ مگر اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ان سارے عناصر کو ترتیب دینے والی قوت سیاست کی ہوتی ہے۔ سیاست کا مطلب صرف اقتدار حاصل کرنے کی جستجو سمجھنا غلط ہے۔ سیاست تو قومی وقار اور قومی ترقی کی رہنماقوت ہوتی ہے۔ جب کسی بھی ملک اور قوم کی سیاست ’’سانپ اور سیڑھی‘‘ کاکھیل بن جائے توپھر وہ قوم ہمیشہ تاریخ کی حادثات میں رہتی ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے نہ صرف اقوام بلکہ تہذیبوں کو ملیامیٹ ہوتے دیکھا ہے۔تہذیب بھی اس وقت تباہی کے راستے پر گامزن ہوجاتی ہے جب وہ اصولوں سے انحراف کرتی ہے۔ اصولوں سے کٹ کر قوم اس طرح بکھر جاتی ہے جس طرح ایک مالا کے موتی اس دھاگے کی ٹوٹنے سے بکھر جاتے ہیں؛ جو دھاگہ سارے موتیوں کو پرو کر ایک مالا کا روپ دیتا ہے۔ ہماراملک کافی وقت سے بحرانوں کا شکار رہتا آیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جس طرح ہر مرض اور مصیبت کا خطرناک مرحلہ ہوتا ہے؛ اسی طرح وقت ہم تاریخ کے خطرناک مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ اس دور میں ہم نے اگر اپنی سیاست کو اقتدار تک پہنچنے کی سیڑھی بنانے سے اوپر نہیں اٹھایا تو ہم آنے والے وقت میں ایک سرد آہ کے ساتھ صرف یہ سوچتے رہ جائیں گے کہ کاش! ہم نے صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کیا ہوتا۔ اس وقت پاکستان شدید ترین معاشی بحران میں مبتلا ہے۔ جس طرح غربت امراض کی آغوش ہوتی ہے۔ اس طرح مہنگائی کسی بھی ملک کے لیے مہلک مرض کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ آج ہم جس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں، اس کی بنیاد آج سے بہت پہلے رکھی گئی تھی۔ ہمیں یہ بات بھی اپنے ذہن میں بٹھانی چاہئیے کہ کوئی بھی فصل اچانک نمودار نہیں ہوتی۔ ہر مسئلہ اپنے مراحل پورے کرتا ہے۔ جس طرح کوئی فصل تب تک پیدا نہیں ہوتی جب تک زمین میں بیج نہ بویا جائے اور جب تک اس بیج کو پانی نہ دیا جائے اور جب تک پیدا ہونے والے انکروں کو ہوا اور سورج کی روشنی نہ ملے تب تک ایک فصل کبھی بھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح قوموں کے بحرانوں کے بیج بوئے جاتے ہیں اور وہ حالات بھی پیدا کیے جاتے ہیں، جن حالات کے باعث بحرانوں کے بیج فصل کی صورت اختیارکرتے ہیں۔ ہم کو اپنے ملک کی سیاسی تاریخ میں اس بات کا پتہ لگانا ہوگا کہ آخر قومی سفر میں کرپشن کے بیج کس نے بوئے اور ان کو کس نے پانی اور ہوا سے آشنا کیا؟ ہمیں سیاستدان تو ملتے ہیںمگر قومی رہنما ہماری نظر سے غائب ہوگئے ہیں۔کسی نے کہا ہے کہ ’’سیاستدان آنے والے انتخابات کے بارے میں سوچتا ہے اور رہنما آنے والی نسل کے بارے میں فکرمند رہتا ہے‘‘ اس وقت ملکی سیاست جس چال سے اپنی بازی چل رہی ہے اس کا ٹارگٹ تاریخ میں سرفراز اور کامیاب ہونا نہیں بلکہ آنے والے انتخابات میں زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ہے۔ ہمارے وہ اہل قلم جن کوحزب اختلاف کے بڑے اتحاد پی ڈی ایم سے بڑی توقعات تھیں، وہ ا س وقت بہت ناراض ہیں۔ کیوں کہ ان کو صاف نظر آ رہا ہے کہ پی ڈی ایم آنے والے انتخابات کی تیاری کر رہی ہے۔ پی ڈی ایم کو ملک کی نہیں بلکہ اقتدار حاصل کرنے کی فکر ہے۔ اس لیے وہ اپنی سیاست کی گاڑی کو کبھی تیز اور کبھی دھیما چلا رہے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ بات صاف ہے کہ انہیں انتخابی اسٹیشن پر کس وقت پہنچنا ہے۔ وہ اسی رفتار کے ساتھ وقت گذار رہے ہیں۔ حالانکہ ہم جن سانحات کا سامنا کر رہے ہیں ان کا تقاضہ یہ ہے کہ ملک کی تمام جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور ان مسائل کا حل تلاش کریں ،جن مسائل میں ہمارا ملک پھنس چکا ہے۔ سیاست میں جب قربانی کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے تب زوال کی ابتداہونے لگتی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں نے ملک کے لیے تو کوئی قربانی نہیں دی، البتہ کرپشن کے باعث ان کو جو چند دن سرکاری مہمان نوازی میں گزارنے پڑے ،ان کے لیے وہ مختصر قید سب سے بڑی قربانی ہے۔اگر اس ملک کی سیاسی جماعتوں کی قیادت حقیقی طور پر قربانی کے لیے تیار ہے، تو اس کو سب سے پہلے اپنی اقتداری ہوس کی قربانی دینا ہوگی۔ کیوں کہ اس قربانی کے بغیر تو قوم کا قافلہ قدم بھی نہیں اٹھا سکتا۔ ہم تاریخ کے اس مقام پر کھڑے ہیں جس کو عبرت کا مقام جاتا ہے۔ عبرت کے اس مقام کے پاس ہمیں سمجھانے کے لیے بہت کچھ ہے۔ کیوں کہ تاریخ سے بڑی رہنما قوت اور توکوئی ہوتی نہیں۔ ہمارے قومی قافلے کو ذرا سے دیر کے لیے اس مقام پر ٹہر کر سوچنا چاہئیے۔ جس مقام کی نشاندہی کرتے ہوئے علامہ اقبال نے فرمایا تھا: آگ بجھی ہوئی ادھر ٹوٹی ہوئی طناب ادھر نہ جانے اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں