اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمیٰ نے صدارتی ریفرنس کیس میں وفاقی حکومت سے تحریری معروضات طلب کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ بظاہر یہ ٹیکس کا معاملہ ہے جج کے خلاف بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں لگایا گیا۔بدھ کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10رکنی فل کورٹ بنچ نے ایک پھر بار ایسٹ ریکوری یونٹ کی قانونی حیثیت اور جج کے خلاف شکایت گزار عبدالوحید ڈوگر سے متعلق سوالات اٹھائے ۔عدالت کا کہنا تھا کہ اے آر یو کی قانونی حیثیت کیا ہے اور عبد الوحید ڈوگر کون ہے ؟کیا شکایت گزار کے کوائف کا جائزہ لینا ضرروی نہیں تھا ؟کیا شکایت گزار کو معلومات غیب سے ملیں؟جسٹس عمر عطابندیال نے کہا ریفرنس کی بدنیتی اور اے آر یو کی قانونی حیثیت پر سوالات پوچھے گئے ہیں اس کا جواب دیا جائے جبکہ یہ بھی بتایا جائے کہ صدارتی ریفرنس میں نقص ہے تو کونسل ازخود کاروائی کر سکتی ہے ؟ کیا جوڈیشل کونسل صدارتی ریفرنس پر کارروائی کی پابند ہے ؟فرض کر لیں یہ کمزور ریفرنس ہے ، جس کے پس پردہ مقاصد ہیں،کیا کونسل ایسے ریفرنس پر کارروائی کرنے کی پابند ہے ؟کیا کونسل ریفرنس میں کمی کوتاہی نظر انداز کر کے کاروائی کر سکتی ہے ؟ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اے آر یو نے کتنی عوامی شکایات پر عوامی عہدہ رکھنے والوں کے خلاف کاروائی کی ؟جسٹس عمر عطا بندیال نے فروغ نسیم سے کہا کہ آپ منی ٹریل کی بات کرتے ہیں بظاہر یہ ٹیکس کی ادائیگی کا معاملہ ہے ،اس مقدمے میں جسٹس قاضی فائز پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا۔فروغ نسیم نے کہا کہ عدالت کی بات بالکل ٹھیک لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں اور اہلیہ نے بھی لندن کی پراپرٹی ظاہر نہیں کی ، بلاشبہ قاضی خاندان امیر ہے لیکن ریکارڈ زرعی زمین پر زرعی ٹیکس ظاہر نہیں کرتا۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال اٹھایا کہ ایف بی آر نے کارروائی کیوں نہیں کی؟ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نام کے سپلینگ نہیں آتے تو ویب سائٹ پر سرچ کیسے ہو سکتا ہے ؟فروغ نسیم نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف انکوائری کے لیے صدرِ مملکت کی اجازت درکار نہیں تھی۔وفاقی حکومت کے رولز آف بزنس اے آر یونٹ کو انکوائری کی اجازت دیتے ہیں۔ جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں ایسا لگتا ہے ٹیکس قانون کی پیروی نہیں کی گئی جبکہ آرٹیکل 209 عدلیہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے ،ہمیں فاضل جج کی بددیانتی یا کرپشن دکھائیں ایسا کچھ بتائیں جس سے جرم سامنے آئے ، جج شیشے کے گھر میں لیکن جوابدہ ہے ۔فروغ نسیم نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینک ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ دکھا دیں، عدالتی سوالات پرمیرا ایک لائن کا جواب ہے کہ منی لانڈرنگ سنگین جرم ہے ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزامات کا جواب دینے کے بجائے آزاد عدلیہ کے پیچھے چھپنے کا سہارا لیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کیا قانون کے تحت جج منی ٹریل دینے کے پابند ہیں؟ آپ سوال پر آتے نہیں اور قانون بھی نہیں دکھا رہے ۔ فروغ نسیم نے جواب دیا بھارت میں جج کی اہلیہ بچوں کے نام اثاثے تھے تحقیقات ہوئیں تو اس جج نے استعفی دے دیا۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا بھارت کے قانون کو چھوڑیں پاکستان کے قانون کی بات کریں اورایمنسٹی سکیم کا حوالہ دلائل میں کیوں دیا ؟فروغ نسیم نے اعتراف کیاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایمنسٹی سکیم سے کوئی فائدہ نہیں لیا۔ جسٹس عمر عطابندیال نے فروغ نسیم سے کہاکہ قانون دکھا دیں جس کے تحت جج کو اپنی اور خاندان کے افراد کی جائیداد ظاہر کرنا ضروری ہے ، شق 5کے تحت جج کیلئے ایسی پابندی نہیں کہ وہ غیر ملکی جائیداد ظاہر کرے ۔ فروغ نسیم نے کہاکہ عدالت کے سوالات کا جواب دوں گا پہلے مجھے حقائق بیان کر لینے دیں۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ عدالت عظمی ٰکے فیصلوں کے تحت جوڈیشل کونسل صدارتی ریفرنس پر صدر مملکت کے عمل کا جائزہ نہیں لے سکتی،میرے ذہن میں ایک بات کھٹک رہی ہے کہ ٹیکس قانون کا آرٹیکل 116 زیر کفالت کی بات کرتا ہے ،کسی کے خلاف مناسب مواد کی موجودگی کو قانون سے ثابت کرنا ہوتا ہے ۔ بعدازاں عدالت نے سماعت آج صبح تک ملتوی کردی ۔