ہم اپنے لئے قانون میں سہولت اور دوسروں پر قانون کا نفاذ چاہتے ہیں۔ ہمیں پکڑا جائے تو ہر طرح کا اثر ورسوخ روا اور جائز دوسرے پہ گرفت ہو اور وہ چھوٹ جائے تو ایک المیہ‘ افسوسناک معاشرتی سانحہ۔ میرے بیٹے کو آوارہ گردی اور قمار بازی کے الزام میں اٹھا لے جائے تو ظلم و زیادتی‘ کسی اور کا بیٹا اٹھایا جائے اور ضمانت پر رہا ہو جائے تو پولیس مجرم‘ عادی رشوت خور وغیرہ ۔جب صورت حال کی نوعیت ایسی ہو تو سوچیے کہ معاشرہ کیسے اچھا ہو گا‘ قانون کی بالادستی کیسے قائم ہو گی۔ جو اپنے لئے چاہیں وہی دوسروں کے لئے بھی چاہنا اخلاقی فریضہ ہے۔ جسے ہم اپنے لئے ناپسند کریں‘ وہ دوسروں کے لئے بھی ناپسند و ناگوار ہونا چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اپنے لئے میٹھا میٹھا ہپ ہپ‘ دوسروں کے لئے کڑوا تھوتھو۔ خدا بخشے مرحوم ابن الحسن کو جو اپنے زمانے کے بہترین کالم نگار، ایسی سہوو خطا سے پاک پر تاثیر زبان لکھتے تھے کہ باید و شاید۔ جن دنوں وہ سندھ کے صوبائی اور فوجی گورنر کے زبردستی مشیر اطلاعات بنائے گئے تھے‘ اس خاکسار کو اس وقت کے وائس چانسلر نے دوہری تنخواہ وصول کرنے کا شوکاز نوٹس دے دیا تھا۔ جرم فقط یہ تھا کہ یہ خاکساربچوں کے ایک رسالہ ’’آنکھ مچولی‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ ایک فوڈانڈسٹریز سے نکلنے والا یہ رسالہ اپنے ایڈیٹر کو تنخواہ بھی دیتا تھا اور دوسری مراعات بھی حاصل تھیں۔ یہ شکایت کسی نے ہمارے وائس چانسلر تک پہنچا دی اور وی سی صاحب بوجوہ اس ناچیز سے خوش نہیں تھے۔ جب شوکاز ملا تو یہ خاکسار ابن الحسن مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوا‘ خیال تھا کہ وہ گورنر اور ہماری یونیورسٹی کے چانسلر سے کہہ دیں گے تو معاملہ رقت گزشت ہو جائے گا۔ لیکن ابن الحسن صاحب نے کسی قسم کی سفارش کرنے کے بجائے مشورہ دیا کہ میں اس شوکاز کا جواب دوں اور یہ لکھوں کہ کسی استاد یا سرکاری ملازم کے لئے اخبار یا رسالے میں لکھنا یا کام کرنا کوئی جرم نہیں۔ ایسے بے شمار سرکاری ملازمین ہیں جو سرکاری ملازمت کے ساتھ اخبار و رسائل میں کالم نگاری یا مضمون نگاری کرتے ہیں اور اس کا معاوضہ بھی وصول کرتے ہیں اور پھر انہوں نے ایسے ملازمین کے نام بھی گنوائے خود اپنے آپ کو بھی ان میں شامل کیا۔ میں نے ان کے مشورے پر ایسا ہی جواب وائس چانسلر کو دے دیا۔ وہ چپکے ہو گئے اور میرے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔ لیکن بتانے کی بات یہ ہے کہ جب ابن الحسن مرحوم اس خاکسار کو یہ مشورہ دے رہے تھے تو مجھے خاصی مایوسی ہوئی کہ انہوں نے عملاً میری مدد کرنے کے بجائے مشورے پر ٹرخا دیا۔ مسئلہ تو میرا اسی مشورے سے حل ہو گیا لیکن ایک سوال اپنے پیچھے چھوڑ گیا کہ اگر مشورہ دینے والے کا اپنا بیٹا یا رشتہ دار ایسے کسی مسئلے یا افتاد میں گرفتار ہوتا تو ابن الحسن صاحب یہی کرتے؟ محض مشورہ دیتے یا براہ راست گورنر صاحب سے کہہ سن کر یہ معاملہ حل کرا دیتے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ابن الحسن مرحوم کے بیٹے پرجو ایک بینک میں افسر اعلی تھے‘ ایک بڑی رقم غبن کرنے کا الزام لگا۔ بیٹے نے باپ سے فریاد کی اور مدد چاہی کیوں کہ الزام جھوٹا اور بے بنیاد تھا۔ لیکن ابن الحسن صاحب نے بیٹے کو بھی ٹکا سا جواب دے دیا کہ قانون کی جنگ لڑو‘ میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ بیٹے نے قانونی جنگ لڑی اور یہ بات آخر کار ثابت ہو گئی کہ یہ دفتر کے ایک بدنیت و بدقماش آدمی کی سازش تھی۔ الزام جھوٹا ثابت ہو گیا اور بیٹے صاحب کی گلو خلاصی ہو گئی۔ مجھ تک جب یہ واقعہ پہنچا اور اس کی تفصیل معلوم ہوئی تو ابن الحسن مرحوم کی عزت دل میں دو چند ہو گئی۔ آج ہمارے معاشرے میں ایسے کتنے لوگ ہوں گے جو اس طرح قانون کی پابندی اور اس کا احترام کرتے ہوں۔ ایک فیصد لوگ بھی ایسے ہو جائیں تو یہ معاشرہ سدھر جائے سب سے پہلا اور بڑا مسئلہ یہی قانون کی بالادستی کا ہے۔ جب تک قانون بالادست نہیں ہو گا‘ تب تک ہم قانون کی پابندی کرنا اور اس کا احترام کرنا نہیں سیکھیں گے، کوئی سوال نہیں کہ نجات مل جائے۔ موجودہ حکومت نے بدعنوانی کو اپنا ٹارگٹ بنایا ہے اور نیب نے پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے تو یہ اچھی بات ہے لیکن سزا کہاں مل رہی ؟ یہاں تو مک مکا کا سارا معاملہ ہے۔ اس احتساب سے یہ تو ہوا ہے کہ رشوت خور اور بدعنوان عناصر خوف زدہ ہو گئے ہیں لیکن بدعنوانی کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے رشوت ستانی اب بھی اپنے عروج پر ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ لین دین کے معاملات میں اک ذرا احتیاط برتا جانے لگا ہے۔ وہ دیدہ دلیری اور بے خوفی جو بدعنوانیوں میں تھی۔ اب وہ صورت نہیں ہے صورت پیدا ہو بھی کیسے سکتی ہے جب تک بدعنوان عناصر کی سرکوبی کے لئے انہیں کڑی سزائیں نہ دی جائیں۔ فی الحال تو یہ صورت ہے کہ اربوں روپے لوٹے ہیں تو کروڑوں کی ادائیگی کر کے رہا ہو جائو۔ کیا اس طرح ہم بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک سکتے ہیں؟ کیا اس طرح رشوت ستانی کا خاتمہ ممکن ہے؟ ظاہر ہے نہیں تو پھر اس ساری مشق و ریاضت کا فائدہ؟ ہمیں تیز رفتاری سے عدل و انصاف کے قیام کے لئے قوانین میں موجود سقم کو دور کرنا ہو گا۔ یہ طے ہو جانا چاہیے کہ کسی بدعنوان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے کم سے کم مدت کتنی ہونی چاہیے جس میںمقدمہ نمٹا دیا جائے۔ مشرف دور میں آصف زرداری آٹھ سال تک قید رہے اور ان کے خلاف کوئی چیز ثابت نہ ہو سکی۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایک بزرگ صحافی نے آصف زرداری کو ’’مرد حُر‘‘ کا خطاب دے دیا۔ سب سے اہم مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ جب تک کوئی سیاست دان برسر اقتدار ہوتا ہے‘ سب کی نظروںمیں وہ ویلن ہوتا ہے۔قوم کے سارے مصائب کا ذمہ دار لائق گردن زدنی، لیکن جب وہ اقتدار سے اتر کر قانون کی گرفت میں آ جاتا ہے تو عوام کی نظروں میں وہ ’’مظلوم ہیرو‘‘ ہو جاتا ہے زبانیں اس کے حق میں رطب اللسان ہو جاتی ہیں۔ گویا ہمارے لوگ طاقت کے خلاف اور کمزور کے لئے ہمدردی محسوس کرنے میں نہایت فیاض واقع ہوئے ہیں۔ جب تک یہ رویہ نہیں بدلے گا‘ ملک میں قانون کا خوف اور قانون کا احترام کیسے ممکن ہو گا۔؟