ایک زمانہ تھا کہ اسلام آباد کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین اور پرامن شہروں میں ہوتا تھا آج سی ڈی اے کی مہربانی سے اسلام آباد بھی پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح گندگی کا شکار ہے۔ غیر ملکی سفیر اسلام آباد میں گندگی کے ڈھیروں کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور ہمیں اسلام میں صفائی کی اہمیت کا طعنہ دیتے ہیں۔ اسی طرح آج کل اسلام آباد میں قانون کے نفاذ کی حالت بھی ناگفتہ ہے۔پاکستان پہلے ہی FATFکے نشانے پر ہے اور 27میں سے 26 نکات پر عملدرآمد کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ سے نہیں نکالا گیا اور بھارتی وزیر خارجہ کے بیان کے بعد تو یہ اظہر من الشمس ہے کہ یہ بھارتی سازش کا شاخسانہ ہے۔ یہ بھی عجیب تماشا ہے کہ پاکستان کی پیش رفت کا جائزہ لینے والوں میں بھارت بھی شامل ہے بھارتی وزیر خارجہ کا بیان فٹیف کی شفافیت پر بہت بڑا سوال ہے۔ بھارت کی سازشوں سے قطع نظر قانون کی کمزور ترین حکمرانی جو پاکستان کے دارالخلافے میں نظر آتی ہے اس کے لئے کسی دوسری طاقت کو ذمہ دار ٹھہرانا بڑی زیادتی ہو گی۔ اس کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔گزشتہ دنوں یکے بعد دیگرے تین واقعات نے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کو نہایت غیر تسلی بخش ثابت کر دیا ہے۔ پہلا قصہ جو زبان زدعام ہوا وہ عثمان مرزا نامی درندے کا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ قصہ تقریباً سات ماہ پرانا ہے اور اب سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد حکومت کے نوٹس میں آیا ے۔ یعنی جرائم کی نشاندہی پولیس کی بجائے سوشل میڈیا کرتا ہے۔ پولیس کے حالات کا علم رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ ایسی کوئی کارروائی پولیس کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔پولیس عام طور پر ان کارروائیوں میں حصہ دار ہوتی ہے اور اپنا حصہ وصول کر کے ہی ان سے صرف نظر کرتی ہے۔ عثمان مرزا نامی اس آدمی کا یہ پہلا جرم نہیں تھا۔ وہ ایک نامی گرامی غنڈہ تھا اور کافی عرصے سے ان سرگرمیوں میں ملوث تھا وہ پراپرٹی کا دفتر بھی چلاتا تھا اور ایک ریسٹورنٹ کا بھی مالک تھا ۔اس نے ایسے کاموں کے لئے ایک فلیٹ کرائے پر لے رکھا تھا۔ وہ ایک گیسٹ ہائوس بھی چلاتا تھا، اپنے فلیٹ اور گیس ہائوس کے ذریعے وہ گاہک پھانستا تھا اور پھر خفیہ کیمرے کے ذریعے ان کی فلمیں بنا کر انہیں بلیک میل کرتا تھا۔ پولیس نے اس کے موبائل فون سے متعدد ویڈیوز برآمد کی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پیشہ ور بدمعاش اور بلیک میلر تھا۔ اس کا ایک گینگ ہے جو مل کر یہ مذموم کام کرتا ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر طویل عرصے سے یہ کاروبار جاری تھا تو پولیس کیسے اس سے بے خبر تھی۔صرف دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو پولیس بہت ہی معصوم اور نااہل ہے اور یا پولیس اس میں حصہ دار تھی۔ اصل صورت حال اسی صورت میں سامنے آ سکتی ہے اگر اس واقعہ کی تحقیقات پولیس کے علاوہ کوئی اور ادارہ کرے ورنہ پولیس تو ہر صورت میں اپنی بے گناہی ثابت کرے گی۔ یہ ایک واقعہ ہے جو منظر عام پر آیا ہے اس لئے ریاست کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہیے کہ صرف اس واقعے کے کرداروں کو قرار واقعی سزا ملے۔بلکہ اصل مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اسلام آباد کے ماحول کو اس آلودگی سے یکسر پاک کیا جائے اور ایک صاف ستھرے ماحول کی بنیاد رکھی جائے۔اسلام آباد کو ایک ماڈل اور عوام کے لئے ایک محفوظ ترین شہر بنایا جائے۔عام شہروں کی نسبت اسلام آباد کی آبادی بھی کم ہے اور پولیس کا ایک انسپکٹر جنرل اس شہر کی حفاظت کے لئے مقرر ہے جبکہ انسپکٹر جنرل باقی جگہوں پہ پورے صوبے کی حفاظت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ہمیں پولیس کے بہترین افسروں کو اسلام آباد میں متعین کرنا چاہیے اور انہیں اس ماڈل شہر میں تربیت کے بعد دوسرے صوبوں میں جا کر اپنی افادیت ثابت کرنی چاہیے۔ دوسرا افغان سفیر کی بیٹی کے نام نہاد اغوا کا واقعہ ہے۔اس کی تحقیقات نہایت تیزی اور شفاف طریقے سے کی گئی۔ اب تک کی تحقیقات سے یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ یہ اغوا نہیں بلکہ اغوا کا ایک ڈرامہ تھا۔ لیکن جو نقصان اسواقعہ نے پاکستان کی ساکھ کو پہنچایا وہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔اس واوعہ نے 1971ء میں کشمیری مجاہدین کے ذریعے بھارتی ہوائی جہاز کے ہائی جیک کرنے کی یاد تازہ کر دی ہے۔ اہل لاہور نے ان جعلی مجاہدین کو بھی خوب ہار پہنائے اور نتیجتاً پاکستان اور بھارت کے سفارتی تعلقات منقطع ہوئے اور اس کے بعد مشرقی پاکستان کے المیے نے جنم لیا۔ سفیر کی بیٹی کے اغوا کے نتیجے میں افغانستان نے اپنے سفیر اور اپنے سفارتی عملے کو واپس افغانستان بلا لیا ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ اس سارے پلان کا مقصد ہی یہ ہو۔ یا یہ کہ ابتدائی تحقیقات میں کوئی تسلی بخش جواب نہ دینے پر افغان سفیر اور ان کی بیٹی کافی مشکل میں تھی۔ان کی پوری کہانی جھوٹی ثابت ہو رہی تھی اور ان کا اصل منصوبہ تشتا زبام ہونے کا خطرہ تھا۔ہماری حکومت کو اس واقعے کو کسی طور پر بھی ہلکا نہیں لینا چاہیے اور اس کا سفارتی حل نکالنا چاہیے۔ افغان سفیر کی بیٹی کی کردار کشی ہمارا مقصد نہیں ہونا چاہیے بلکہ اصل کہانی صرف افغان حکومت کے علم میں آنی چاہیے نہ کہ عام لوگوں کے۔ اس معاملے میں پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی بہت اچھی رہی ہے ۔ ابھی سفیر کی بیٹی کے واقعہ کی گرد پوری طرح بیٹھی بھی نہیں تھی کہ پاکستان کے ایک سابق سفارت کار کی بیٹی کے بہیمانہ قتل کی واردات نے اہل اسلام آباد کے دل دہلا دیے ۔ مبینہ قاتل زیر حراست ہے اور ایک امیر ترین خاندان کا فرد بتایا جاتا ہے۔ اسے ذہنی مریض ثابت کرنے کی مہم پہلے یہ شروع ہو چکی ہے۔وزیر اعظم پاکستان جو ہمیشہ طاقتور لوگوں کو قانون کے نیچے لانے کی بات کرتے ہیں ایک بار پھر امتحان میں ہیں۔یہ اسلام آباد پولیس اور عدلیہ کے لئے بھی ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اس کیس کا فیصلہ یا تو قانون شکنوں کے لئے باعث عبرت اور اسلام آباد کے پرامن مستقبل کی نوید ہو گا یا پوری قوم کے لئے باعث شرم کہ ہم اپنی بیٹیوں کی بھی حفاظت نہیں کر سکتے۔اسلام آباد پولیس کے لئے اب چیلنج ہے کہ وہ پورے اسلام آباد سے قانون شکنوں کاخاتمہ کرے اور پوری قوت سے قانون کے نفاذ کو یقینی بنائے۔ یہ کام آسان نہیں ہے لیکن ہماری بقا کے لئے نہایت ضروری ہے۔