وہ ویڈیو نہ صرف وائرل ہوئی مگر وائرل ہونے والی اس ویڈیو نے اپنا کام بھی کردکھایا۔ وہ ویڈیو جس میں کراچی کے سابق ایڈمنسٹریٹر فہیم الزماں نے صرف ایک غریب پولیس اہلکار کی ماں بہن اس لیے ایک کرکے رکھ دی کہ وہ غلط ٹرن کرنے والے ڈرائیور سے قومی شناختی کارڈ کے بارے میں پوچھنے کا جرم کر رہا تھا۔ وہ غریب پولیس اہلکار گالیاں بکتے ہوئے شخص سے بولے جا رہا تھا کہ ’’ہم تو آپ کی حفاظت کے لیے کھڑے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ ریڈ زون ہے۔ اس میں ہم قومی شناختی کارڈ کے بارے میں پوچھ کر کون سی غلطی کر رہے ہیں‘‘ اس پولیس اہلکار پر گالیوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور وہ گالیوں میں گند کو اپنی وردی سے ہٹاتے ہوئے مسلسل کہہ رہا تھا کہ ’’میں تو عزت سے بات کر رہا ہوں اور آپ مجھ گالیاں دیے جا رہے ہیں‘‘ یہ اچھا ہوا کہ وہ ویڈیو بنی اور وائرل بھی ہوئی ۔ اس ویڈیو کی وجہ سے فہیم الزماں پر مقدمہ بھی درج ہوا۔ اب اس نے ضمانت بھی کروالی ہے۔ مگر یہ سوالات ابھی تک میری سوچ کو سانپ کی طرح ڈس رہے ہیں کہ کیا وہ ایسا شخص تھا جس کو کراچی جیسے منی پاکستان کا ایڈمنسٹریٹر ہونا چاہئیے تھا؟ جب ایسے لوگ بڑے عہدوں پر پہنچتے ہیں تو شہر کا حشر ایسا ہوتا ہے جیسا دو تین برس پہلے تھا۔ کیا کراچی کا بنیادی مسئلہ مہاجر قوم پرستی اور اس کی قیادت تھی؟ کراچی کا بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ اس شہر پر مجرم صفت افراد مسلط ہوگئے۔ان مجرموں کے پاس جو تھا انہوں نے کراچی کے سینے میں پیوست کیا۔ جن کے پاس گولیاں تھیں انہوں نے کراچی کو لہو لہان کردیا اور جن کے پاس سازش کی سفاک آگ تھی انہوں نے سانحہ بلدیہ میں غریب مزدوروں کو زندہ جلا دیا۔ جن کے پاس گالیاں تھیں وہ اب تک اس شہر کی عزت پر گالیوں کے پتھر پھینک رہے ہیں۔ کیا سابق ایڈمنسٹریٹر نے ایک غریب پولیس اہلکار کو گالیاں دیں؟ نہیں۔ اس نے قانون کو گالیاں دیں۔ وہ پولیس اہلکار دھوپ میں بھیک مانگنے نہیں کھڑا تھا۔ وہ پولیس اہلکار ایکس ایڈمنسٹریٹر سے ذاتی مدد مانگنے کے لیے نہیں کھڑا تھا۔ وہ تو اس شہر کے راستوں کی حفاظت کر رہا تھا۔ وہ تحفظ کے ساتھ ساتھ اہلیان کراچی کو سہولیات دینے کی کوشش کر رہا تھا اور اس پر گالیاں برسائی گئیں۔ یہ گالیاں اس قانون کے حصے میں آئیں جس قانون نے ایک غریب اہلکار کو وردی پہنا کر ڈیوٹی دینے کے لیے مقرر کیا تھا۔ یہ گالیاں اس معاشرے کو ملتی رہیں جس معاشرے پر قانون مخالف افراد حکمرانی کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اور آپ بھی جانتے ہیں کہ فہیم الزماں کا یہ عمل اس فرسٹریشن کا نتیجہ ہے جو کرسی سے محروم ہونے والے کے مقدر میں آجاتی ہے۔ فرسٹریشن کا مرض بہت برا ہوتا ہے۔ جتنی بڑی کرسی سے علیحدگی اتنی شدید فرسٹریشن۔ یہ ہی سبب تھا کہ سابق ایڈمنسٹریٹر گالیوں کے درمیان بار بار چیخ کر کہہ رہاتھا کہ ’’کیا تم مجھے نہیں جانتے؟‘‘مگر کیا شناخت کے بحران میں مبتلا بندہ یہ جان رہا تھا کہ وہ کس کی توہین کر رہا تھا؟ وہ ایک فرد کی نہیں اس ادارے کی توہین کر رہا تھا جس ادارے کے بہت سارے اہلکار سڑک پر کھڑے اور ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے انجان دہشتگردوں کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ فہیم الزماں ایک غریب ٹریفک اہلکار کی نہیں بلکہ قانون کی توہین کا مرتکب ہوا۔ شہر کے سابق ایڈمنسٹریٹر جتنی بھی گالیاں دیں وہ نہ صرف قانون اور قانون کی بنیاد پر کھڑے ہوئے نظام کو دیں مگر وہ گالیاں اس کراچی کے حصے میں بھی آئیں جس کراچی نے فہیم الزماں کو کبھی اتنی عزت سے نوازا تھا کہ اسے ملک کے سب سے بڑے شہر کا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا۔ اس شہر کا اپنا کردار تھا اور اس شخص کا اپنا کردار تھا۔ مگر فہیم الزماں نے جو کچھ کیا اس عمل سے میرے ذہن کے ایک بہت پرانے اور بیحد الجھے ہوئے سوال کو جواب ملا ہے۔ میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ آخر کراچی کے حالات پولیس سے ٹھیک کیوں نہیں ہوتے؟ آخر کراچی دنیا کے دوسرے شہروں سے کوئی مختلف شہر تو نہیں۔ اگر نیویارک اور لندن جیسے شہروں کو وہاں کی پولیس کنٹرول کرسکتی ہے تو کراچی کے لیے آخر ہمیں ہر بار رینجرز کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟اب تو کراچی میں رینجرز کو پولیس کے اختیارات دینے کی اجازت پر کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا مگر ایک وقت ایسا بھی تھا جب وزیر اعلی سندھ نے وفاق کو بلیک میل کرنے کے لیے رینجرز کی توسیع میں اضافے والی سمری پر دستخط کرنے سے انکار کردیتا تھا اور ان اوقات میں ایسے مراحل بھی آئے کہ رینجرز تنگ آکر کراچی کے راستوں سے ہٹ جایا کرتی تھی۔ کراچی کے حالات پر بات کرتے ہوئے ہمارے سیاسی دانشور ہمیشہ اس سوال کو اٹھایا کرتے تھے کہ آخر کراچی میں رینجرز کی ضرورت کیا ہے ؟ کیا کراچی کے حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس کافی نہیںہے؟ اس سوال کا جواب گذشتہ دنوں کراچی کے ریڈ زون میں پیش آنے والے واقعے نے ہمیں دے دیا۔ ہم سب جانتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں اگر ریڈ زون میں ایک پولیس اہلکار کے بجائے رینجرز کا سپاہی کھڑا ہوتا تو کیا فہیم الزماں اس طرح گالیاں دیتے رہتے؟ ظاہر ہے کہ سوال کا جواب ہے ’’نہیں‘‘ تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کراچی میں رینجرز کو مقرر کرنے کا جواز ہمارے وہ سیاستدان پیدا کرتے ہیں جو پولیس کی وردی پہننے والے قانون کی عزت نہیں کرتے۔ وہ قانون کی عزت تب کرتے ہیں جب قانون رینجرز یا فوج کی وردی پہن کر آتا ہے۔ یہ قانون کا کردار نہیں ہمارا اپنا کردار ہے کہ ہم قانون کی اس صورت کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں جو صورت ہم سے عزت بھرے لہجے میں بات کرتی ہے۔وہ صورت جو ہم سے تعاون کرنے کے لیے تیار رہتی ہے مگر ہم قانون کی اس صورت کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ کیا ہم قانون کو اہمیت دیتے ہیں؟ ہم قانون کو اہمیت نہیں دیتے۔ ہم قانون کی عزت نہیں کرتے۔ ہم قانون سے ڈرتے ہیں۔ جب تک قانون ہمیں ڈرانے کی حد میں داخل نہیں ہوتا تب تک ہم قانون کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ہم کس طرح یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ ہم قانون پسند قوم ہیں؟ اگر ہمارے ملک کے سب سے بڑے شہر کے بہت بڑے عہدے پر رہنے والا شخص قانون کی توہین کو اپنا حق سمجھتا ہے تو پھر اس معاشرے میں قانون اپنے پر کیسے پھیلائے گا؟ قانون تو علامہ اقبال کے شاہین کی طرح عزت اور وقار کے آسمانوں میں اڑنے کے لیے ہوتا ہے۔ ہم نے اس قانون کو اپنی ذاتی پسند ناپسند کے پنجرے میں تیتر کی طرح بند کردیا ہے۔ اب ہم اس تیتر سے کس طرح مطالبہ کر سکتے ہیں کہ وہ پہاڑ سے کودے اور اپنے پنجوں میں بہت بڑے سانپ کو اٹھائے اور چٹانوں میں اس کو چیر پھاڑ دے؟ ہم جس قانون سے کراچی کی لاقانونیت کا مقابلہ چاہتے ہیں اس قانون کی عزت تو ہم خود بھی نہیں کرتے۔ پھر ہم عام شہریوں اور عام شہریوں کے راہ سے ہٹ کر ہتھیار اٹھانے والے کراچی کے مخصوص کرداروں سے کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ’’قانون کی عزت کرو‘‘ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہم قانون کی عزت نہیں کرتے۔ ہم قانون سے ڈرتے ہیں۔ اگر ہم قانون کی عزت کرتے تو ہم ایک عام پولیس اہلکار کی بھی بات مان لیتے مگر ہم عام پولیس اہلکار کی توہین کرتے ہیں مگر جب ہم رینجرز کو دیکھتے ہیں تب ہمیں قانون کی حکمرانی یاد آجاتی ہے۔ ہم پولیس کی صورت میں قانون پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں مگر رینجرز یا فوج کے روپ میں ہم قانون کی عزت کرنے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں۔ہماری یہ سوچ اور ہماری یہ روش کراچی کو قانون کے آغوش میںسمانے کی مخالف ہے۔ ہم عزت اور ڈر کے درمیان فرق سمجھنے سے محروم ہیں۔