ایک ابال ہے جو اپوزیشن جماعتوں میں اٹھتا ہے‘ تازہ مہم فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنے کی ہے‘ حکومت اس اعلان کو الیکشن کمیشن پر احتجاجی حملہ قرار دے رہی ہے۔ اپوزیشن رہنمائوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے فارنگ فنڈنگ کا اعتراف کر لیا ہے اس لئے وہ الیکشن کمیشن سے فیصلہ لے کر ہی جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنے کا مقصد حکومت گرانا نہیں بلکہ جمہوریت کی بحالی ہے۔ حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو انتباہ کیا جا رہا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے سامنے ہنگامہ آرائی سے باز رہے۔ پاکستان میں سیاستدانوں کی ناسمجھی اور بات بات پر مظاہروں نے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کر رکھا ہے ۔اپوزیشن ہو یا حکومت دونوں کو اس بات کا ادراک نہیں ہو سکا کہ خطے میں کچھ اہم تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں‘ ان تبدیلیوں کے اثرات جنوب مشرقی ایشیا کے تمام ممالک پر مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ اثرات اپنی نوعیت کے لحاظ سے دفاعی اور معاشی اہمیت رکھتے ہیں۔ ریاستیں اور اقوام اس صورت حال میں خود کو منظم‘ متحد اور مستعد رکھیں گی تومنفی اثرات سے محفوظ رہ سکیں گی۔ خطہ افغان تنازع کے کئی مضمرات کو بھگت چکا ہے‘ تشدد پسندی‘ دہشت گردی‘ منشیات اور مہاجرین کے دبائو نے پاکستانی سماج سے افغان تنازع کا فریق بننے کا خراج وصول کیا ہے۔ عالمی طاقتوں کی جنگ اور خانہ جنگی کے شکار افغانستان سے امریکہ نکل رہا ہے۔ حالیہ دنوں امریکہ نے اپنے پانچ ہزار فوجیوں میں سے نصف کو اگلے چند روز میں افغانستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس امریکی فیصلے کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی ایک کمیٹی کی سربراہی بھارت کو دیدی گئی ہے۔ یہ کمیٹی افغان طالبان پر پابندیوں کا جائزہ لینے کے لئے بنائی گئی ہے۔ اس فیصلے سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بھارت کی مدد سے امریکہ اپنے اتحادیوں کو اس تنازع سے جڑے اہم معاملات میں شریک رکھنا چاہتا ہے۔ ہمارے کئی سابق اتحادی اپنی ترجیحات تبدیل کر چکے۔ ان حالات میں ایسا نہیں کہ ریاست پاکستان نے اپنی سمت کا تعین نہیں کیا‘ چین‘ روس‘ وسط ایشیا‘ ترکی ہماری نئی ترجیحات ہیں۔ دفاع کے ساتھ ساتھ معیشت کی مضبوطی پر توجہ دی جا رہی ہے لیکن نظام کی خرابیوں اور نقائص کو بنیاد بنا کر اپوزیشن روز نیا بحران پیدا کرنے کی کوشش میں رہتی ہے۔ اس سے حکومت کی توجہ بٹی اور انتشار بڑھا ہے۔ فارن فنڈنگ کئی طرح کی ہوتی ہے۔ پسماندہ ممالک میں کام کرنے والی نان گورنمنٹل آرگنائزیشنز(این جی اوز)کا سارا کام ہی بیرونی فنڈنگ سے چلتا ہے۔ سابق دور میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بیرونی فنڈز پر کام کرنے والی این جی اوز کو نئے سرے سے رجسٹرڈ کرنے کا منصوبہ دیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت درجنوں این جی اوز کو پاکستان کی سلامتی و استحکام کے خلاف سرگرمیوں پر معطل کر دیا گیا۔ ایسا صرف پاکستان میں نہیں ہوا بھارت کی چالیس ہزار سے زیادہ این جی اوز میں سے 20ہزار کی سرگرمیوں پر پابندی لگ چکی ہے۔ حال ہی میں ڈس انفو لیب کی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس میں ایسے تین سو کے لگ بھگ میڈیا ہائوسز ‘ ویب پورٹل اور ریسرچ اداروں کا انکشاف ہوا ہے جنہیں بھارت کے سری واستو گروپ کی جانب سے پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کے لئے فنڈز فراہم کئے جاتے تھے۔ افسوسناک امر یہ کہ اس ڈس انفو نیٹ ورک کی جانب سے بعض معاملات پر ریاست پاکستان اور سکیورٹی اداروں کے خلاف جو پروپیگنڈہ کیا گیا کئی حکومت مخالف عناصر نے بلا تحقیق اس الزام تراشی کو اپنے سیاسی بیانئے کا حصہ بنا لیا۔ تحریک انصاف پر الزام ہے کہ اس نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کے لئے بیرون ملک سے فنڈز حاصل کئے ۔یہ فنڈز کن غیر ملکیوں یا قابل اعتراض شخصیات سے لئے گئے اس کی تفصیل مسلم لیگ ن کے سابق رکن اسمبلی حنیف عباسی اور تحریک انصاف کے منحرف کارکن اکبر ایس بابر کی جانب سے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کو فراہم کی گئی دستاویزات کا حصہ ہے۔ الیکشن کمیشن نے چھ برس تک اس معاملے کی سماعت کی ہے۔ بہت سے قانونی پہلوئوں کو تفصیل کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے اصولی بات یہی ہو گی کہ متعلقہ اداروں کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ الیکشن کمیشن اس سلسلے میں جو فیصلہ کرے وہ کسی ہنگامہ آرائی یا دبائو کا نتیجہ نہیں ہونا چاہیے۔ فیصلے جتنے آزادانہ ہوں گے ان کی قبولیت کی شرح بھی اسی طرح زیادہ ہو گی۔ جمہوریت کا یہ بنیادی تقاضا ہے کہ اداروں کو حکومت اور اپوزیشن کے دبائو سے آزاد رکھا جائے۔ مسلم لیگ ن پر الزام رہا ہے کہ اس نے حسب منشا فیصلہ لینے کے لئے سپریم کورٹ پر حملہ کیا۔ اس طرح کے اور بھی کئی واقعات داغ کی صورت سیاست کے دامن پر لگے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو سیاست کرنا چاہیے‘ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی بھی نہیں ہونی چاہیے لیکن سیاست اور جمہوری روایات کو قانون و آئین کے دائرے میں رکھنے کی ذمہ داری سیاسی قیادت پر عاید ہوتی ہے۔ جماعتی یا خاندانی مفادات کی خاطر نظام کو خطرات سے دوچار کرنا کسی لحاظ سے درست نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنا یا احتجاج کی بجائے اس معاملے کو قانونی حوالے سے اجاگر کرنا چاہیے اور کسی اعتراض کی صورت میں متعلقہ پلیٹ فارم سے رجوع کرنا چاہیے۔