قبائلی علاقوں میں قائم تین کالجوں سمیت 600سے زائد تعلیمی اداروں میں تدریسی سرگرمیاں گزشتہ دس برس سے معطل ہیں۔ جنوبی وزیرستان کے علاقے اورکزئی اور محسود میں صورتحال زیادہ گھمبیر ہے جہاں سینکڑوں سرکاری سکول اور کالجوں میں تالے لگے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں لڑکیوں کے 190سکول غیر فعال ہیں۔ تعلیمی اداروں کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے ہزاروں اساتذہ جنوبی وزیرستان سے کراچی منتقل ہو گئے یا پھر حصول روزگار کے لیے خلیجی ممالک چلے گئے ہیں‘ بلا شبہ امن و امان کے قیام کے دوران پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مجموعی طور پر قریباً6ہزار سے زائد تعلیمی ادارے موجود تھے جن میں چھ لاکھ طلباء تعلیم حاصل کر رہے تھے لیکن جب 9/11کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا تو ان علاقوں کا تعلیمی نظام متاثر ہوا۔ دہشت گردوں نے کئی تعلیمی اداروں کو نشانہ بنا کر انہیں تباہ و برباد کر دیا۔ بعدازاں پاک فوجی کی طرف سے ضرب عضب اور ردلفساد جیسے بڑے آپریشنوں کے بعد ان علاقوں میںنہ صرف امن و امان بحال ہوا بلکہ تعلیمی سرگرمیاں بھی شروع ہو گئیں‘ تاہم بعض سکیورٹی خدشات اور مقامی افراد کی نقل مکانی کے باعث تعلیمی ادارے غیر فعال ہو گئے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کا اعتماد بحال کیا جائے اور ان علاقوں میں تعلیمی سرگرمیاں بھر پور طریقے سے شروع کرنے پر توجہ دی جائے اور جہاں نئے سکول بنانے ‘ پرانے سکولوں کی مرمت‘ ان کے سازو سامان اور فنڈز کی ضرورت ہے‘ اسے پورا کیا جائے‘ اگر اسی طرح کا تعلیمی ماحول بنایا جائے تو اس سے نہ صرف علاقے کے لوگوں کا اعتماد بحال ہو گا اور ان علاقوں میں تعلیمی سرگرمیاں پھر سے جاری ہو سکیں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قبائلی علاقوںکو ملک کے دوسرے علاقوں کے مساوی تعلیمی سہولتیں دی جائیں تاکہ ان علاقوں کے عوام کا احساس کمتری ختم ہو اور انہیں ملک کے مفید شہری بننے کے مواقع فراہم کئے جا سکیں۔