منا ن خان کے لہجے میں اداسیاں بول رہی تھیں اوراسکی آنکھیں بھر آئی تھیں وہ کہنے لگا’’ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہہ ہمیں اس طرح دربد ر ہونا پڑے گا … آپ یقین نہیں کرو گے کہ یہ سامنے جتنا بڑا ہوٹل ہے ناں اس سے بڑا توہمارا مہمان خانہ تھا ‘‘۔ اسلام آباد میں رینٹ اے کار کا کاروبار کرنے والا چوبیس سالہ منان خان شمالی وزیرستان کا رہنے والا اور دو بیٹیوں کا باپ ہے چھ برس قبل وہ اٹھارہ برس کا کڑیل جوان اور تین ماہ کا دولہا تھا جب اسے اس حالت میں گھر سے نکلا پڑاکہ اسکے پاؤں میں جوتے اور ہاتھ میں صرف دُلہن کا ہاتھ تھا۔ منان خان سے ہماری سلام دعا ایک دوست کے توسط س ہوئی تھی جودوستی میں بدل گئی ،گذشتہ روز اسکے دفتر کے سامنے سے گزرتے ہوئے اسے باہر کھڑا دیکھ کر دور سے ہاتھ تو ہلا یا منان خان نے فوراً آواز دی اور اپنے مخصوص انداز میں کہا ’’آپ کو قسم ہے جو آگے گیا‘‘ اورمیں مسکراتا ہوا اس کے دفتر میں آگیا ،ہماری گفتگو کا آغاز کوروناکی تباہ کاریوں سے ہوا جوہوتے ہوتے شمالی وزیرستان تک جا پہنچا میں نے منان خان کو بتایا کہ میں میران شاہ جا چکا ہوں میں اس بازار کی رونقیں کبھی نہیں بھولوں گا جہاں ایک ہی بازار سے ہیوی مشین گن بھی خریدی جاسکتی تھی اور آلو پیاز بھی میری بات پر منان خان ہنس پڑا’’ سر جی ! افغانستان کے جہاد میں یہاں بہت اسلحہ آیا ،میں تو بہت چھوٹا ہوں والد اور دادا بتاتے ہیں کہ یہاں طالبان سے پہلے مجاہدین آیا کرتے تھے ،جلال الدین حقانی ،مولانا یونس خالص،گلبدین حکمت یار ۔۔۔۔ان کے مجاہدروز ہی آیاکرتے تھے وہ روسیوں سے چھینا سامان یہاں بیچا کرتے تھے او ر اپنی ضرورت کا سامان بھی خریدا کرتے تھے ۔ منان خان کہتا ہے مجھے وہ وقت یاد نہیں البتہ تحریک طالبان کا دور اچھی طرح یاد ہے ،ان کا پورے علاقے پر کنٹرول تھاہمارے اسکول بند کر دیئے گئے تھے یابارود سے اڑا دیئے گئے تھے ایک خوف اور دہشت کا ماحو ل تھا سچی بات کہوں جب فوج نے آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور میں نے سنا تو مجھے بہت خوشی ہوئی میںنے ابا سے کہا کہ اب ان طالبان کے دن پورے ہو گئے جس پر اس نے مجھے جھڑک دیا کہ چپ کر۔ وہ شائد بارہ جون یا تیری جون 2014کا دن تھا جب فوج نے ہم سے کہا کہ علاقہ خالی کردیں میںنے والد صاحب سے کہا کہ لگتا ہے اب لڑائی ہونے والی ہے ہمیں نکل جانا چاہئے لیکن والد صاحب نے کہا کہ مشران بات چیت کر رہے ہیں، جرگہ بیٹھے گا امیدہے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ کسی کو بھی توقع نہیں تھی کہ جنگ چھڑ جائے گی وہ تو جب پندرہ جون کو توپوں کی آوازیں آئیں تو ایسی افراتفری مچی کہ کیا بتاؤں میںاپنے کمرے میںتھا۔ شادی کو تین مہینے ہوئے تھے مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آیا بس اپنی دُلہن کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکلا تو والد صاحب کو سامنے کھڑا دیکھا۔ اتنے میں ایک خوفناک گولے کی آواز آئی پوری زمین ہل گئی میں باہر بھاگا والد صاحب اور بہن بھائی بھی پیچھے بھاگے دروازے پر والد صاحب نے مجھے ایک زوردار تھپڑ ماراکہ اپنی بیوی کی فکر ہے، چھوٹے بہن بھائیوں کی پرواہ نہیں ،سرجی ! اس وقت ایسی حالت تھی کہ مجھے والد صاحب کے تھپڑ کی تکلیف ہی نہیںہوئی نہیںورنہ ان کا ہاتھ بڑا سخت پڑتا ہے۔ ہمارے پاس اپنی پک اپ تھی اس میں جو جو آسکتا تھا رکھ لیا اور ہم وہاں سے پنا ہ کے لئے ایسے نکلے کہ اب تک دوبارہ نہیں جاسکے۔ یہ کہانی تھوڑے بہت ردو بدل کے ساتھ ہراس وزیرستانی کی ہے جس نے آپریشن ضرب عضب میں اپنا گھر بار چھوڑا،آج اس’’ہجرت‘‘ کو چھ برس ہونے کو ہیں اور یہ سب منتظر ہیں کہ ہم اپنے اپنے گھروں میں پہلے کی طرح جا بسیں ،ضرب عضب سے پہلے پاکستان کیلئے دہشت گردی بڑا چیلنج بن چکا تھا نیکٹا کے اعداد وشمار کے مطابق2014ء میں دہشت گردی کے 1823واقعات میں 1761 افراد جان سے گئے اور 2836 زخمی ہوئے تھے اس وقت پاکستان دنیا میں دہشت گردی کے شکار ممالک میں تیسرے نمبر پر تھااور یہی وہ خونیں سال تھا جب کراچی ائیرپورٹ ،پاکستان ائیر فورس بیس کوئٹہ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا اور حکومت کی رٹ کھلے عام چیلنج کردی سب سے خوفناک اور بھیانک سولہ دسمبر کا وہ واقعہ تھا جس میں دہشت گردو ں نے آرمی پبلک اسکول پشاور کے نہتے معصوم بچوں کا قتل عام کیا جس کے بعدقومی قیادت نے مل کر فیصلہ کیا کہ اب اس کینسر کو جڑ سے نکالنا ہی ہوگاپھر ضرب عضب پلان کیا گیا اور پاک افغان سرحد کے قریب شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے مضبوط اڈوں کو ہدف بنا کر ’’عضب ‘‘ سے یہ ناسور کاٹ ڈالا گیااسکا فوری نتیجہ اگلے برس دہشت گردی کے واقعات میںواضح کمی کی صورت میں ملا۔ 2015ء میںدہشت گردی کے 1009واقعات ہوئے جو گذشتہ برس کے مقابلے میںپینتالیس فیصد کم تھے جس کے بعد بتدریج ان واقعات میں کمی آتی گئی یہ آپریشن کہنے کو وزیرستان میں تھا لیکن اسکے سائیڈ ایفیکٹس ملک بھر میں دکھائی دیئے تھے اس میںفوج اور نیم فوجی دستوں کے 488افسر اور جوان شہید اور 3700 دہشت گرد مارے گئے۔ شمالی وزیرستان میں امن قائم ہو گیا اور الحمد اللہ ملک میں بھی سکون ہوگیالیکن یہاں سے لٹ پٹ کر آنے والے منان خان ابھی تک پریشان ہیںوہ اپنے گھرلوٹنا چاہتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ فوج اپنے حصے کا کام کرچکی ہے اب باری سول انتظامیہ کی ہے کہ وہ انہیں بسائے یہ لوگ واپسی کے منتظر ہیں اپنے گھر بار اور گلیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آنکھیں بھر آتی ہیں لبوں پر شکوے شکایات کا آجانا بشری امر ہے سول انتظامیہ اور حکومت کو ان علاقوں کی آبادکاری کے لئے ہنگامی نہیں جنگی بنیادوں پر کام کرنا چاہئے تھا افسوس کہ نہیں ہوا اوران شکووں سے پشتون تحفظ موومنٹ جیسی تحریکوں کو پھلنے پھولنے کا موقع مل گیا جس میں سرحد پار سے ڈکٹیشن لینے والوں کو گھسا کر پوری تحریک کوہی ہائی جیک کرلیا گیا اب یہ تحریک ان علاقوں کے احساس محرومی میں شکایات اور گلے شکوں کی یوریا ڈال کروطن مخالف کھیتی کاشت کررہی ہے محب وطن قوتیں اس حوالے سے فکرمند ہیں کہ یہ پریشانی دور ہونی چاہئے اور دورہوسکتی ہے اگر قبائلیوں کی اداس آنکھوں میں جھانکا جائے ،ان کی شکایات کے ازالے کا آغاز کیا جائے انہیں احساس دلایا جائے کہ اسلام آباد کو میران شاہ ،شوال بھی اتنا ہی عزیز ہیں جتنا لاہور ،فیصل آباداور پشاور کراچی، یہ احساس ہی خیر کی ضمانت ہے ۔