قومی اسمبلی میں قبائلی علاقہ جات کو خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کا بل منظوری کے لیے پیش ہوا تو ارکان اسمبلی کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے۔عمران خان جو اسمبلی جانا توہین سمجھتے ہیں وہ بھی تشریف لائے اور خطاب بھی کیا۔ دھیمے مزاج کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو یقین نہ آیا کہ دس ماہ کے مختصر دور اقتدار میں وہ ایک تاریخ رقم کررہے ہیں۔ قبائلی علاقہ کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا عمل طویل اور تھکا دینا والا ہے۔ 1973میں افغانستان کے حکمران ظاہر شاہ کاتختہ الٹا گیاتو زیرک ذوالفقارعلی بھٹو کو اندازہ ہوگیا کہ یہ ریجن عالمی طاقتوں کے مابین اکھاڑہ بننے کو ہے۔ قبائلی علاقہ جات کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے ایک طویل المیعاد منصوبے پر انہوں نے کام شروع کیا۔ صوبہ سرحد کے گورنر نصیراللہ بابر نے پشاور کے پوش علاقے میں واقع اپنی رہائش گا ہ پر بھٹو کی زندگی اور طرز سیاست پر ایک گفتگو میں بتایاکہ بھٹو حکومت دس سال کے اندر فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا پروگرام بناچکی تھی۔افسوس!جنرل ضیا الحق اور بعد کے حکمرانوں نے اس علاقے کی ترقی اور یہاں بسنے والے پچاس لاکھ سے زائد شہریوں کی فلاح وبہبوداور انہیں بااختیار بنانے کی کوئی فکر نہیں کی۔ نائن الیون کے بعد اس علاقہ میں ایک بار پھر خون کی ہولی کھیلی گئی ۔ القاعدہ، طالبان اور کئی ایک دوسرے نان اسٹیک ایکٹرز نے یہاں پناہ گائیں قائم کیں ۔ پاکستان اور افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے سرگرم ہوگئے حتیٰ کہ ان عناصر نے سوات اور مالاکنڈ ایجنسی تک اپنی جڑیں پھیلا دیں۔ ریاستی ادارے مفلوج ہوگئے۔ملا فضل اللہ کا سوات پر سکہ چلتاتھا۔جنوبی وزیرستان سے اسے کمک ملتی اور وہ خلافت کے قیام کے خواب دیکھنے لگا۔ قبائلیوں نے اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں بہت دکھ اٹھائے اور زخم کھائے۔ ستر برسوں تک غربت، مشکلات اور محرومیوں نے ان کے گھر میں ڈھیرے ڈالے رکھے۔ اسی کی دہائی سے شروع ہونے والی جنگ میں پچاس ہزار کے لگ بھگ لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔کتاب اور سکول بیگ کی جگہ قبائلیوں کے بچوں کو بندوقیں او ربارود کے تھلے تھامادیئے گئے۔ سکول بنانے کے بجائے مورچے اور غاریں کھوی گئیں۔ استاد کی جگہ ’’کمانڈروں‘‘ نے سنبھالی۔ ریاست کے غلط فیصلوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طویل جنگ اور انگنت قربانیوں کے بعد قبائلی علاقہ جات میں امن بحال ہوا۔ شدت پسندوں اور ان کے پشتی بانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑالیکن یہ منزل حاصل کرنے کے لیے بہت قربانی دینا پڑی۔ قبائلیوں کو دیگر ہم وطنوں کے برابرحقوق حاصل کرنے کے لیے چار نسلوں تک انتظار کرنا پڑا۔ اب وہ خیبر پختون خوا کا حصہ بن چکے ہیں۔ایف سی آر جیسا کالا قانون دفن ہوچکا۔ زنجیر عدل ہلانے کے لیے ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے دروازے قبائلیوںکے لیے چوپٹ کھل چکے ہیں۔کل کو قومی اور صوبائی اسمبلی میں منتخب نمائندے سیاسی اور معاشی حقوق کے لیے آواز اٹھاپائیںگے۔ نو ن لیگ ، تحریک انصاف، متحدہ مجلس عمل اور عوامی نیشنل پارٹی کے مابین الیکشن کا رن پڑے گا تو قبائلیوں کو سیاست کا چسکا لگ جائے گا۔ اگر ’’اجازت ‘‘ ہوئی تو سول سوسائٹی بھی متحرک ہوگی۔ اس طرح ایک صحت مند سماج ابھرے گا۔جو دنیاکو بندوق اور توپ کی نالی نہیں بلکہ عالمگیریت کے عدسے سے دیکھے گا اور معاشی ترقی کے ثمرات سے بازیاب ہوگا۔اگر اللہ رب العزت نے چاہا تو چند سال بعد یہ ایک بدلا ہوا علاقہ ہوگا ۔ دلفریب نظاروں اوروادیوں کی سیر کو ملک بھر سے ہی نہیں دنیا بھر سے سیاح امنڈ آئیں گے۔ حیرت ہے کہ مولانا فضل الرحمان جیسے سیاسی جادو گرسے کیسے چوک ہوگئی۔انہیں کیوں نہ سمجھ آئی کہ وقت کا دھارا بدل چکا ہے۔ محمود اچکزئی کے اشتراک سے نوازشریف پر دباؤڈال کرانہوں نے فاٹا کے لوگوں کو ملنے والے حقوق کا عمل سست کرایا۔ آئینی، قانونی اور سیاسی حقوق کی بات کرنے والے ٹکراؤ اور تصادم کے راستے پر چل نکلے تھے۔ پاکستان کے حریفوں کواپنا لچ تلنے کا نادر موقع مل گیا تھا۔ ہمسائیہ ممالک اور استعماری طاقتیں اپنی چالیں چل رہی تھیں لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ ان سے بھی بڑی تدبیر کرنے والا کوئی اور موجود ہے۔ ریاست اور اس کے اداروں نے لوگوں کے مطالبات اور احتجاج کے جواب میں سیاسی عمل تیز تر کیا۔فوج کو بتدریج بیرکوں میںبھیجنے اور بیس ہزار کے لگ بھگ لیویز بھرتی کرنے اور انہیں پولیس کے ساتھ ساتھ امن وامان کی ذمہ داریاں سونپنے کے فیصلے نے خوشگوار فضا پیدا کرنے میں اہم کرداد ادا کیا۔ مشاورت اور مکالمے کا ماحول پیدا کرکے سیاستدانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیاگیا۔نیشنل سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلا کر فاٹا اصلاحات اور خیبر پختون خوا میںضم کرنے کے فیصلہ پر سیاسی اور عسکری اداروں نے مشترکہ طور پر مہر ثبت کی۔ گزشتہ سترہ اٹھارہ برسوں سے قبائلی علاقہ کا عملاًانتظام و انصرام فوج کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے عسکری قیادت اور سویلین کا ایک صفحے پر ہونا ضروری تھا۔ تمام تر تلخیوں کے باوجودوزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے عسکری قیادت کے ساتھ تعلقات کار کو بحال رکھا اور پیشہ ورانہ امور کو متاثر نہیں ہونے دیا۔جو موجودہ ماحول میں غنیمت ہے۔ وزیراعظم عباسی ایک دو دن میں گلگت جانے والے ہیں جہاں اس خطے کو بااختیاربنانے کے لیے عدلیہ، مقننہ اور انتظامی اصلاحات متعارف کرائی جارہی ہیں تاکہ اس خطے کو بھی ملک کے دیگر حصوں کے برابر حقوق حاصل ہوسکیں۔ نئی اصلاحات کے آنے کے بعد گلگت بلتستان کے شہریوں کو پاکستان کی عدلیہ تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔ گلگت بلتستان کونسل کے پاس جو انتظامی اور مالی اختیارات ہیں وہ حکومت اور اسمبلی کو منتقل ہوجائیں گے۔وفاقی سطح کے پالیسی ساز اداروں میں مبصر کی حیثیت سے نمائندگی ملے گی۔ پانچ سال کے لیے ٹیکس چھوٹ بھی دی گئی کیوں نہ دی جاتی ہے آخر پاک چین اقتصادی راہ داری کا نکتہ آغاز گلگت بلتستان سے ہوتاہے۔یہ پاکستان کی اقتصادی شہ رگ ہے۔یہاں کے شہری خوشحال اور باوقار ہوں گے تو اس کے ثمرات سے پورا ملک مستفید ہوگا۔ اگر چہ عوام اور حکومت گلگت بلتستان کو ملک کا پانچواں صوبہ بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن مرکزی حکومت نے اختیارات کی منتقلی کا عمل تدریجی عمل اختیار کیاہے۔ رفتہ رفتہ اور بھی اختیارات گلگت بلتستان منتقل ہوجائیں گے۔ صرف تحمل کی ضرورت ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے جس دن فاٹا اور گلگت بلتستان کو حقوق دینے کا اعلان کیا اسی دن مظفرآباد کو کشمیر کونسل کے انتظامی اور مالیاتی چنگل سے نجات دلانے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ سلسلہ سست پڑھا گیا۔ طاقتور حلقے سونے کی اس کان کو ہاتھ سے نکلتا دیکھتے ہیں تو ٹرپ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے آزادکشمیر کے اندر ایسے لیڈروں اور بااثر شخصیات کی کمی نہیں جو کشمیر کونسل کے بے پناہ مالی وسائل سے پیٹ کا دوزخ بھرتے ہیں اور کشمیریوں کے دل منہ چڑھاتے ہیں۔ کارخانہ قدرت میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ جلد ہی آزادکشمیر میں صبح نو طلوع ہوگی۔انشااللہ۔