اللہ رب العزت نے اپنی مخلوق کی راہنمائی کے لئے تقریباًایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبرعظام علیہم السلام مبعوث فرمائے ۔ہر نبی الگ الگ قوم اور الگ الگ علاقہ کے لئے مبعوث ہوا۔کسی نبی کو خلیل اللہ کا لقب عطا ہو ا تو کوئی ذبیح اللہ کے شرف سے مشرف ہوا۔ کوئی روح اللہ بنا تو کوئی کلیم اللہ کے منصب اعلیٰ پر فائز ہوا۔لیکن سرکا ر دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ رب العزت نے حبیب اللہ کے منصب پر فائز کرتے ہوئے رہتی دنیا کے آنے والے لوگوں کے لئے راہنما اور رسول بنا کر مبعوث فرمایا۔آپ ایک طرف تو شا ن عبدیت پر فائز تھے تو دوسری طرف آسمان کی بلندیاں آپ کے سامنے مسخر کر دی گئیں۔آپ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے وہ شاہکار تھے جن پر خود خدا کو بھی پیار آجاتا تھا۔سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کریم نے اپنی مخلوق کو عطا کی گئی لا تعداد نعمتوں میں سے کسی کو نہ شمار کیا اور نہ ہی احسان جتلایا لیکن جب مخلوق کو احسان جتلانا چاہا تو یہی فرمایا کہ بے شک ہم نے مومنین پر احسان کیا کہ ان میں اپنا رسول مبعوث فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ ہر لمحہ سراپا معجزہ اور ایک مکمل اسوہ حسنہ بھی ہے ،مکہ کے لوگ خود جانتے تھے کہ غار حرا سے جس روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت کا پیغام لے کر اُترے اس سے ایک دن پہلے تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارک کا معمول کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشاغل کیا تھے ، دلچسپیاں اور سرگرمیاں کس نوعیت کی تھیں۔ یہ پوری زندگی صداقت، دیانت، امانت اور پاک بازی سے لبریز ضرور تھی، اس میں انتہائی شرافت، امن پسندی، پاس عہد، ادائے حقوق اور خدمت خلق کا رنگ بھی غیر معمولی شان کے ساتھ نمایاں تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کسی فرد ِ واحد کی سیرت نہیں ، بلکہ یہ ایک ایسی تاریخی طاقت کی داستان ہے ، جو غارِ حرا سے لے کر غارِ ثور تک ، حرم کعبہ سے لے کر طائف کے بازار تک ، مشرق سے مغرب تک ، شمال سے جنوب تک ، مسجد کی شب بسری سے لے کر میدان جنگ تک ، متمکن بر سریر نبوت سے لے کر پیٹ مبارک پر پتھر باندھے ہوئے خندق کھودنے تک ،فرش نشینی سے لے کر آسمانوں کی سیرکرنے تک اُفق تا اُفق ، کراں تا کراں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے ۔ یوں تو آپ کی نبوت کا زمانہ اس وقت سے ہے جب کہ حضرت آدم علیہ السلام ابھی مٹی اور پانی کے درمیان تھے جن اصلابِ مطہرات میں آپ کا نور منتقل ہوتا گیا ان کی شان جداگانہ ہوتی گئی لیکن جب نورمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں جلوہ گر ہو اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس زمین کو شرف بخشا کہ آپ اس پر قدم رنجا فرمائیں اس کے بعد سے لے کر اعلان نبوت تک کا ہر دن نہ صرف تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے بلکہ بندۂ مومن کے قلب و جاں کو معطر و منور کرنے کے لئے شافی وکافی ہے ۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واحد نبی ہیں جن کے بچپن سے لے کر تا وقت وصال ہر ہر چیز اللہ کریم نے محفوظ فرما دی ہے ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس دنیا میں تشریف فرما ہوئے تو ہر طرف جہالت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا ، پورا عرب اخلاقی بحران کا شکار تھا ، دنیائے انسانیت میں عجیب سا ہیجان برپا تھا ، اَخلاقی اصولوں کی سرعام پامالی اور انسانیت کی تذلیل ایک معمولی بات سمجھی جاتی تھی ، ایسے بدترین اور اخلاقیات سے عاری معاشرے میں ، مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بلند اخلاق اور اعمال کے ذریعے سیرت وکردار کی تعمیر کا درس دیا اور اپنی مبارک و مقدس ذات کو بطور نمونہ پیش فرمایا ،بالآخر نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مقصد میں کامیا ب ہو ئے اور ساری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اخلاقی پستیوں میں گرے ،باہمی رنجشوں کے سبب ٹکڑوں میں بٹے عربوں کو ،نہ صرف پیکر اخلاق بنا یا بلکہ انھیں وحدت کی لڑی میں پرو کرکے ایک ایسی متحد مسلمان قوم بنایا جو دنیا پر حکمرانی کرنے کے باوجود اپنی اخلاقی پاکیزگی ،انفرادی آزادی اور معاشرے میں توازن قائم کرنے کے سبب ایک لمبے عرصہ تک انسانیت کی علمبردار ٹھہری ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اظہار ِ نبوت سے قبل پورے عرب میں اپنے صادق وامین منصب کا ثبوت روزِ روشن کی طرح واضح کرکے دیکھا یا ، سفر تجارت ہو ، یا مال تجارت پرحفاظت ونگرانی کا معاملہ ہو،پورا عرب سروردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن معاملہ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔یہ عرب معاشرہ میں پہلا بڑاعملی کام تھا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت اور آپ کی سیرت کا ایک مثبت تاثر مکہ کے ماحول پر مرتب کیا۔ان واقعات کے علاوہ بھی تمام زندگی میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طرز عمل معاشرے کیلئے ایک نمونہ تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سچے انسان کے طور پر معروف تھے تمام اہل عرب اپنی امانتیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کرتے تھے ۔ جھگڑوں کے فیصلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیصلہ حتمی سمجھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام امن و سعادت کا استعارہ سمجھا جاتا تھا۔آپ جب بھی بولتے سچ بولتے ، ہمیشہ بتوں سے نفرت کرتے ۔ تجارت کرتے تو ایسی کہ سب تاجر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا بننے کی آرزو کرتے ۔کسی سے وعدہ کرتے تو اس طر ح پورا کرتے کہ لوگوں کے لیے مثال بن جاتا۔باحیا ایسے کہ نظریں اٹھا کر نہ دیکھتے ۔ چلتے تو ایسے جیسے اوپر سے نیچے کی طرف آرہے ہوں۔ آپ کے بدن اور کپڑوں کی نظافت ایسی کہ سب رشک کرتے ، الغرض اعلان نبوت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طرز عمل ایک مکمل اور کامل انسان کا طرز عمل تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زندگی کے 40سال عرب معاشرے میں بسر کیے اور اپنی شخصیت کی دھاک بٹھا دی۔پھر جب حکم الٰہی سے لوگوں کو توحید کی دعوت دی تو سب سے پہلے خو د کو پیش کیا اور اپنے طرز عمل پر گواہی لی۔بے شک اللہ کے نبی علیہ السلام کے ہر عمل میں امت کے لئے رہنمائی ہے ۔ سلام اے آمنہ کے لال اے محبوبِ سبحانی سلام اے فخرِ موجودات فخرِ نوعِ انسانی