وفاقی دارلحکومت میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا حکومت جلد انتخابات کروانا چاہتی ہے؟ لیکن اس سوال کا تشفی جواب کہیں سے سامنے نہیں آرہا۔جب کسی سوال کا تشفی جواب سامنے نہ آسکے تو سوال ازخود دَم توڑ جاتا ہے۔ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ سوال کا وہ وقت نہیں تھا۔ہر سوال کا وقت ہوتا ہے۔وقت کی منڈیر سے لیا گیا سوال ہی اپنا تشفی جواب رکھتا ہے ۔تو کیا مذکورہ سوال اگلے سوال کی ساعتوں میں دَبنے کا انتظار کررہا ہے؟میرا خیال ہے کہ یہ سوال دَب جائے گا،مگر مَیں تذبذب کا شکار بھی ضرور ہوںکہ سوال میںایک دھندلا سا امکان موجود ہے۔اگر حکومت سوچ رہی ہے کہ وہ اگلے انتخابات مقررہ مُدت سے پہلے کروائے تو بنیادی پہلو یہ کہ ایسا کیوں سوچ رہی ہے؟صاف ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے یہ خیال ہوسکتا ہے کہ قبل از وقت انتخابات کا انعقاد بہتر نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔اگر قبل از وقت انتخابات کے نتیجے میں بہترنتائج کا معاملہ ہے تو اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ حکومت اگلے سال کے اختتامی لمحوں میں انتخابات کے انعقاد کو اپنے لیے موزوں وقت سمجھ رہی ہے تو پہلا نکتہ یہ اخذکیا جاسکتا ہے کہ حکومت کو اپنی کارکردگی پر بھروسہ نہیں،وہ میدان میں اُترنے کے لیے موقع کی تلاش میں ہے۔دوسرا نکتہ یہ نکلتا ہے کہ وزیرِ اعظم سمجھتے ہیں کہ اِن کی اپنی بہتر کارکردگی کی بدولت اِن کی جماعت کو عوام کا اعتماد حاصل ہے اور یہ عوام کہ اعتماد کے لمحہ کو ضائع نہیں ہونے دیتے ۔ہر دوامکانی صورتوں میں حکومت موقع کی تلاش میں دکھائی دے رہی ہے۔ اگرعام انتخابات وقت پر ہوتے ہیں یا قبل ازوقت،پاکستان تحریکِ انصاف کے پیشِ نظر میاں نوازشریف اور مریم نواز کا انتخابی کردار اہمیت کا حامل ہونا چاہیے۔اگر ہم یہاں دوہزار اَٹھارہ کے عام انتخابات کو سامنے رکھیں تو میاں نوازشریف کو اپنی بیٹی سمیت انتخابی مہم میں شمولیت نہیں ملی۔ میاں شہباز شریف اور اُن کے بیٹے سمیت شاہد خاقان عباسی اور دیگر مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے انتخابی مہم کو چلایا،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب کے اقتدار سے بھی محروم ہونا پڑا۔اُس وقت مریم نواز کا تاثر قائم ہورہا تھا،ہوا نہیں تھا،مریم نواز نے اپنے والد کے نا اہل ہونے کے بعد جس طرح اُن کا مقدمہ لڑا اور اپنا تاثر قائم کروایا ،اُس تاثر سے اب پی ٹی آئی کا واسطہ پڑے گا۔ پی ٹی آئی کے لیے اگلے انتخابات کے لیے ضروری پہلو یہ ہے کہ میاں نوازشریف اور مریم نواز کا انتخابی کردار کیا ہوگا؟اگر وقت سے پہلے انتخابات ہوتے ہیں یا مقررہ وقت پر ، پی ایم ایل این کی سیاست میاں نوازشریف اور مریم نواز کے انتخابی کردار پر انحصار کرے گی ،اسی تناظر میں پی ٹی آئی کی کارکردگی کو بھی جانچا جائے گا۔مَیں یہ نہیں کہہ رہا کہ پی ٹی آئی کی اپنی سیاسی اور جمہوری حیثیت نہیں اور اِن کی انتخابی صورتِ حال محض میاں نواز شریف اور بالخصوص مریم نواز کے تناظر تک محدود ہے۔صاف ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی بڑی سیاسی جماعت ہے۔اِن کے پاس بہترین اُمیدوار ہیں ،جو حلقوں کی سیاسی حرکیات کو بہ خوبی سمجھتے ہیں اور سیالکوٹ کی نشست پی پی اَڑتیس میں کامیابی حاصل کرکے اس بات کا ثبوت دیا کہ پی ایم ایل این خود کو پنجاب کی جماعت نہ سمجھے ۔اس صوبائی حلقہ میں پاکستان تحریکِ انصاف نے وہی حکمتِ عملی اور ’’حربوں‘‘کا استعمال کیاجو حکمتِ عملی اور ’’حربے‘‘پی ایم ایل این کا ’’انتخابی ہتھیار‘‘قرارپاتے تھے۔یہ اَمر پی ایم ایل این کے لیے اصل تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔مذکورہ حلقے میں پی ایم ایل این کے اُمیدوار کے ووٹ کم نہیں ہوئے ،مگر پی ٹی آئی نے اپنے ووٹوں میں اضافہ کیا۔اگر پی ٹی آئی صوبائی نشست پی پی اَڑتیس والی حکمتِ عملی اور حربے آمدہ انتخابات کے ہر حلقے میں آزماتی ہے تو پی ایم ایل این کی مشکلات زیادہ ہوجائیں گی۔ماضی میں پنجاب کے بعض حلقوں میں پی پی پی ،پی ایم ایل این کے لیے اسی طرح کی مشکلات پیدا کرتی رہی ہے۔لیکن پی پی پی کے پنجاب میں کمزور ہوجانے کی وجہ سے پی ایم ایل این کا اُمیدوار خاصا پُراعتماد رہا ہے۔اگر پی ٹی آئی مذکورہ صوبائی نشست کی طرز کا الیکشن لڑتی ہے اور مریم نواز کا انتخابی کردار بھی محدود رہتا ہے تو پی ٹی آئی کی کامیابی کے امکانات دوچند ہوجائیں گے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت اگر قبل ازوقت انتخابات کا فیصلہ کرچکی ہے تو بہترین وقت وہ ہوگا،جب پی ایم ایل این کے اندر مریم نواز اور میاں نواز شریف کا کردار سکڑا ہوا اور میاں شہباز شریف کا کردار وسعت کا حامل ہوچکا ہو۔ میرے پیشِ نظر یہاں شہباز شریف کے اندازِ سیاست پر نقد نہیں ،مَیںیہاںوقت کی پکار کو سامنے ر کھ کر بات کررہا ہوں۔ پی ایم ایل این کی موجودہ قیادت کو مریم نوا زکے تاثر کا پوری طرح اندازہ نہیں ہورہا ۔میاں نوازشریف علاج کی غرض سے باہر جاکر اخلاقی طورپر بہت کمزور ہوچکے ہیں،میاں نواز شریف کے باہر جانے کے عمل نے مریم کے تاثر کو مزید مضبوط کیا ہے۔مریم نواز شریف کی رہنمائی میں اگر چہ آزاد جموں و کشمیر اور قبل ازیں گلگت بلتستان کے انتخابات میں پارٹی کو شکست ہوچکی ہے ،لیکن مذکورہ انتخابات کو پنجاب میں ہونیوالے انتخابات سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو اگلے میدان میں اُترنے کے لیے(میدان جب بھی سجے) اپنی کارکردگی کی باگ کو پکڑ کر اُترنا ہوگا اور پی پی اَڑتیس کی حکمتِ عملی کو بروئے کار لانا ہوگا۔اگر ایسا نہیں ہوتا اور مستزاد مریم نواز کی آواز بھی پنجاب میں گونجتی پائی گئی تو پھر وقت کوئی بھی ہو،نتیجہ مختلف ہوگا۔