معزز قارئین!۔ پرسوں (31 جنوری کو )ستمبر 1981 ء سے میرے دوست ، گلاسگو کے ’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی، روزنامہ ’’جرأت‘‘ کے چیف ایڈیٹر جمیل اطہر قاضی اور مجھے گوجرانوالہ کے تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن چودھری ظفر اللہ خان نے لاہور میں ظہرانے پر مدّعو کِیا تھا۔ چودھری ظفر اللہ خان ، اردو ، پنجابی اور فارسی زبان کے عالم و فاضل ہیں اور جب بھی مَیں اپنا کالم لکھنے سے پہلے کسی شعر کا دوسرا مصرعہ بھول جائوں تو، مَیں اُن سے ٹیلی فون پر رابطہ کروں تو وہ مجھے پوری غزل ہی سُنا دیتے ہیں ۔ ’’بابائے امن‘‘ کے والد صاحب موضع ڈُھلّی ( تلہ گنگ ) کے ملک حاکم خان اعوان ،برادرِ عزیز جمیل اطہر قاضی کے چچا ’’سرہند شریف ‘‘کے قاضی ظہور اُلدّین اور میرے والد صاحب ریاست نابھہؔ کے رانا فضل محمد چوہان بھی تحریک پاکستان کے ( گولڈمیڈلسٹ) تھے ۔ معزز قارئین!۔ 31 جنوری کو قومی اخبارات میں ’’ اسلامی نظریاتی کونسل ‘‘کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز ؔکی صدارت میں منعقدہ اجلاس کی سفارشات ( جسے اجتہاد کہا گیا تھا ) کی خبر شائع ہُوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ وفاقی حکومت کی طرف سے 2019ء میں پاکستان کے (امیر اور غریب سبھی )ایک لاکھ چوراسی ہزار دو سو دس (1,84,210) عازمین حج کو "Subsidy" (مالی امداد) دِی جائے گی۔ مَیں نے چودھری ظفر اللہ خان کے ظہرانے میں دوستوں کی خدمت میں ’’قرارداد ‘‘ پیش کی کہ ’’ کیوں نہ پاکستان میں 60 فی صد مفلوک اُلحال عوام کی حمایت میں ’’ اسلامی نظریاتی کونسل ‘‘کے اِس اجتہاد کی مذمت کی جائے ؟‘‘۔ جمیل اطہر قاضی صاحب نے بتایا کہ ’’ ایک بار میری اہلیہ (روبینہ صادق ) بھی میرے ساتھ حج پر گئیں تو ، اُنہیں بھارت کی ایک مسلمان خاتون ( عازمۂ حج ) نے بتایا تھا کہ ، بھارتی مسلمانوں کو خُوش کرنے کے لئے وہاں کی ہر حکومت کی طرف سے اُنہیں فریضۂ حج کی ادائیگی کے لئے 50 فی صد "Subsidy" دِی جاتی ہے ‘‘۔ جمیل اطہر صاحب نے کہا کہ’’ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں ، خاص طور پر امراء کے لئے اِس طرح کی رسم ؔکیوں شروع کی جائے؟‘‘۔ ’’ بابائے امن‘‘ نے کہا کہ ’’ حج کی ادائیگی تو ’’صاحبانِ استطاعت ‘‘ پر فرض ہے اور جو ’’صاحبانِ استطاعت ‘‘ ہیں وہ خود اپنے خرچ پر کیوں نہ حج ادا کریں؟‘‘۔ چودھری ظفر اللہ خان نے کہا کہ’’ قائداعظمؒ نے تو، اپنی ساری جائیداد قوم کے نام کردِی تھی‘‘۔ اُن کی طرح کے حکمران آئیں گے تو، ریاست ِ مدینہؔ کے قیام کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے ۔‘‘ چودھری ظفر اللہ خان کے داماد "Neurosurgeon" کیپٹن (ر) بشیر احمد خان خاموشی سے ہماری گفتگو سنتے رہے اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ ’’ مَیں آپ لوگوں کا ہمنوا ہُوں ‘‘۔ مَیں نے عرض کِیا کہ ’’ میاں نواز شریف وزیراعظم تھے جب، 6 نومبر 2017ء کو ، صدر ممنون حسین نے ڈاکٹر قبلہ ایاؔز کو ’’اسلامی نظریاتی کونسل ‘‘ کا چیئرمین مقرر کِیا تو، 7 نومبر 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ اسلامی نظریاتی کونسل۔ کا ۔ قبلہؔ؟‘‘۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ اسلامی نظریاتی کونسل‘‘۔ کے نئے چیئرمین کا نام بہت متبرک ؔ ہے۔ قِبلہ ؔ ۔ کعبہ کو کہتے ہیں اور قِبلہ و کعبہ ۔ احتراماً باپ یا دوسرے بزرگوں کو بھی، قِبلہ و کعبہ کہا جاتا ہے لیکن، کیا ڈاکٹر قِبلہ ؔایاز کے پاس اتنے اختیارات ہوں گے کہ وہ ’’ اسلامی نظریاتی کونسل ‘‘ میں شامل مختلف مسالک کے عُلماء اور غیر عُلماء کا ’’قِبلہ درست ‘‘ کرسکیں؟۔ مزید عرض کِیا کہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ تو 1962ء میں فوجی آمر صدر محمد ایوب خان نے قائم کی تھی۔ اُس وقت قومی اسمبلی کا وجود نہیں تھا۔ حیرت ہے کہ ، صدر محمد ایوب خان اور اُن کے بعد بھی قومی اسمبلی بلکہ ’’سینٹ آف پاکستان‘‘ بھی قائم ہُوئی ۔ دونوں کو مِلا کر پارلیمنٹ کہا جاتا ہے۔ جنرل ضیاء اُلحق دسمبر 1984ء کے صدارتی "Referendum" میں واحد امیدوار تھے اور منتخب ہوگئے ۔ اُنہوں نے پارلیمنٹ کا نام ’’ مجلس شوریٰ ‘‘ بھی رکھ دِیااور ابھی تک آئین میں پارلیمنٹ کا نام ’’مجلسِ شوریٰ‘‘ ہی ہے ( حالانکہ مجلسِ شوریٰ تو چاروں خلفائے راشدینؓ کے دَور میں ہوتی تھی اور خلیفہ اسلام امیر اُلمومنین کہلاتے تھے )۔ معزز قارئین!۔ جنرل ضیاء اُلحق نے تو، صدرِ پاکستان منتخب ہونے سے پہلے ہی 1980ء میں "Federal Shariat Court"۔ قائم کردِی تھی۔ حیرت ہے کہ ’’ آزاد اور خُود مختار عدلیہ(Judiciary ) کے ہوتے ہُوئے ’’فیڈرل شریعت کورٹ‘‘ کا کیا مقصد؟۔ سوال یہ ہے کہ ’’ کیا آج تک ’’اِسلامی نظریاتی کونسل ‘‘ یا ’’ فیڈرل شریعت کورٹ‘‘ نے کوئی ایسی سفارشات یا فیصلہ کِیا ہے کہ ’’ انگریزوں اور سِکھوں کے دَور میں جن مسلمانوں کو جاگیرداریا زمیندار بنایا گیا تھا حکومت پاکستان اُن کی اولاد سے جاگیریں قومی ملکیت میں لے لے؟ ‘‘ ۔ ایک اور سوال ہے کہ ’’ پاکستان کے جو، 60 فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ، اُن کی غربت کا ذمہ دار کون ہے؟‘‘ ۔ بعض مولوی حضرات تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ امارت اور غربت اللہ تعالیٰ کی دین ہے‘‘۔ عربی زبان میں اجتہاد کے معنی ہیں ۔ ’’ قرآن و حدیث اور اجماعؔ پر ، قیاس کر کے شرعی مسائل کا انبساط کرنا۔ (یعنی۔ ایک بات سے دوسری بات نکالنا) ۔ مصّور پاکستان علامہ اقبالؒ نے تو اجتہادؔ کا حق۔ عُلماء حضرات کو نہیں بلکہ مسلمان ملک کی منتخب پارلیمنٹ کو دِیا تھا۔( اگر اُس پارلیمنٹ میں منتخب عُلماء ہوںتو کوئی مضائقہ نہیں) ۔ جمہوریہ تُرکیہ کے بانی ۔ ’’ اتا تُرک‘‘ غازی مصطفیٰ کمال پاشا کی صدارت میں تُرکیہ کی ’’Grand National Assembly‘‘ نے اجتہاد ؔکا حق استعمال کر کے ہی ۔خلافت ؔکا ’’ناکارہ ادارہ ‘‘۔ ختم کردِیا تھا اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دَور میں قومی اسمبلی نے بھی۔ 1974ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دِیا تھا۔ حیرت ہے کہ ’’ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ قبلہ ایاز نے حکومت کے لئے ’’ریاست ِ مدینہ ‘‘کے قیام کے لئے مزید سفارشات پیش کرنے کے لئے ایک "Working Group"بھی قائم کردِیا ہے ‘‘۔ پھر پارلیمنٹ (مجلس شوریٰ ) کیا کرے گی؟۔ 31 جنوری کی رات تک مجھے اسلام آباد سے چیئرمین ’’ پاکستان کلچرل فورم‘‘ برادرِ عزیز ظفر بختاوری ، سرگودھا سے میرے پرانے دوست سینئر ایڈووکیٹ اور شاعر سیّد شبیر حسین بخاری اور دوسرے کئی دوستوں نے ٹیلی فون پر سخت احتجاج کِیا ۔ گجرات سے دو نامور عُلماء مولانا ابو النبیل، محمد جمیل اعظمی اور مولانا مفتی عبداُلسلام ہاشمی نے تو، یہ بھی کہا کہ ’’ اربوں ، کھربوں روپے کا مقروض پاکستان اِس طرح کی حرکت کیسے کرسکتا ہے ؟۔ کیا ہی اچھا ہو کہ، وزیراعظم عمران خان کی حکومت پاکستان کے غریبوں کی بھلائی کے منصوبوں کی طرف توجہ دے؟‘‘۔ وفاقی وزیر / پیر نور اُلحق قادری معزز قارئین! ۔ یکم فروری کے قومی اخبارات میں خبر شائع ہُوئی کہ ’’ وفاقی کابینہ نے نئی حج پالیسی منظور کرلی لیکن، عازمین حج کو "Subsidy" دینے کی تجویز مسترد کردِی ‘‘۔ بتایا گیا کہ ’’ کچھ وزراء نے سبسڈی کی مخالفت کی تھی اور جب کابینہ نے یہ فیصلہ کِیا کہ ’’ عازمین حج کو "Subsidy" نہیں دِی جائے گی تو، وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور اُلحق قادری ناراض ہوگئے اور اجلاس سے اُٹھ کر چلے گئے‘‘۔ حضرت غوثِ الاعظم شیخ عبداُلقادر جیلانی/ گیلانی ؒ کے اسمِ گرامی سے قادریہ سلسلہ ؔجاری و ساری ہے ۔ مَیں اپنے قارئین اور پیر / وزیر نور اُلحق قادری کی خدمت میں حضرت غوثِ اعظم ؒ کا یہ شعر پیش کر رہا ہُوں… زبر کیسہ ترا نقدے بروں می باید آوردن! چُنیں کار آید از دُزدے سبک دستے کہ طرار ست! یعنی۔ ’’ ارے ! دِل کے کیسہ ( تھیلی/ جیب ) سے نقدی نکالنے کے لئے تجھے بے حد احتیاط سے کام لینا پڑے گا ، وگرنہ یہ کام تو، چابک دست ، تیز طرار چور ہی بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں ‘‘۔ معزز قارئین! ۔ مَیں تو حضرت غوث اُلاعظمؒ کے اِس شعر سے یہ مطلب نکال رہا ہُوں کہ ’’ وزیراعظم عمران خان اور وفاقی کابینہ قومی خزانے کی حفاظت کرے اور ڈاکٹر قبلہ ایاز ؔکی سفارشات اور پیر نور اُلحق قادری کے واک آئوٹ کی پروا نہ کرے ‘‘۔ وفاقی کابینہ نے عازمین حج کو "Subsidy" نہ دینے کا فیصلہ کر کے ثابت کردِیا ہے کہ اُس کا ۔قبلہؔ درست ہے ‘‘۔