سرینگر(نیٹ نیوز)مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کو 2ہفتے مکمل ہو نے کے باوجود وادی میں کشیدگی اور بندشوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔کشمیر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے بی بی سی کے خصوصی ریڈیو پروگرام نیم روز میں بات کرتے ہوئے بی بی سی کے سرینگر میں نامہ نگارریاض مسرور کا کہنا تھا کہ وادی میں عائد قدغنوں اور بندشوں میں ایک تسلسل سا پیدا ہو چکا ہے ،جہاں جہاں کرفیو میں نرمی کی بھی گئی ہے وہاں دکاندار اپنی دکانیں نہیں کھول رہے ہیں ، سٹرکوں پر صرف ہنگامی نوعیت کی ٹریفک ہی موجود ہے ،ایک ڈیڈ لاک کی سی صورتحال ہے جس کے بیچ عوام میں خدشات اور خوف میں مزید اضافہ ہو رہا ہے ۔ حکام نے بتایا کہ پہلے دن اساتذہ کی حاضری 30 سے 50 فیصد جبکہ بچوں کی اکثریت سکولوں سے غیر حاضر رہی، اساتذہ کی کثیر تعداد سکولوں میں نہیں پہنچ پائی کیونکہ سرینگر کے زیادہ تر حصے اور شمالی کشمیر میں بہت زیادہ سخت ناکہ بندی ہے ، بانڈی پورہ اور بارہ مولہ کہ چند علاقوں میں، جن میں صوپور بھی شامل ہے ، سخت پابندیاں ہیں اور اسی وجہ سے بچوں نے سکولوں کا رخ نہیں کیا۔اگر کوئی سٹرک دو طرفہ ہے تو اس کی صرف ایک سمت ٹریفک کے لیے کھولی گئی ہے ، شہریوں کو ہر ناکے پر روکا جاتا ہے اور شناختی کارڈ دیکھا جاتا ہے ، اگر شناختی کارڈ نہیں ہے تو کرفیو پاس طلب کیا جاتا ہے ۔ صحافیوں کیلئے نئے رنگ کے خصوصی کرفیو پاسز (اجازت نامے ) جاری کیے گئے ہیں جن پر کوئی معیاد یا مدت درج نہیں ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاید پابندیوں کا سلسلہ ابھی مزید اور غیر معینہ مدت تک چلے گا۔سرینگر میں دو سبزی منڈیاں ہیں جو صبح کے اوقات میں چار گھنٹوں تک کھلی رہتی ہیں تاہم صبح ہوتے ہی منڈیوں، بازاروں میں مکمل سناٹا چھا جاتا ہے ۔نمائندہ بی بی سی کا کہنا ہے کہ سرینگر کے سب سے بڑے ہسپتال نے بھی سکیورٹی فورسز سے اپیل کی گئی ہے کہ ایمبولینسز کو نہ روکا جائے ۔ شوپیاں، کولگام اور اننت ناگ کے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ہر روز ان علاقوں سے پتھراؤ کرنے والوں کو گرفتار کیا جاتا ہے ۔