وزیراعظم عمران خان نے پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان کی توجہ قبائلی اضلاع کی ترقی کے لیے فنڈز فراہم کرنے کی طرف مبذول کروائی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ تمام صوبوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ این ایف سی میں اپنا تین فیصد حصہ کے پی کے میں ضم ہونے والے قبائلی علاقہ جات کے لیے مختص کریں گے۔ مہمند کے علاقے میں سرنگ اور برادر ملک متحدہ عرب امارات کے تعاون سے تعمیر ہونے والی شیخ زید روڈ کا افتتاح کرنے کے بعد وزیراعظم نے کہا کہ سابق قبائلی علاقوں کی محرومیاں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ فاٹا کے 90 فیصد علاقے سڑکوں‘ کارخانوں‘ منڈیوں‘ بجلی‘ گیس اور تعلیمی و صحت سہولیات سے محروم ہیں۔ ان علاقوں کا احساس محرومی دور کرنا پاکستان کی سالمیت کے لیے ضروری ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد چونکہ صوبوں کے پاس محاصل کے اختیارات بڑھ گئے ہیں اس لیے مرکز کوقبائلی علاقوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے تمام صوبوں کا مالی تعاون درکار ہے۔ وزیر اعظم تمام صوبوں کو وہ وعدہ یاد دلا رہے تھے جوپوری قومی قیادت نے تقریباً دو سال قبل کیا تھا ۔صوبوں نے وعدہ کیا تھاکہ قبائلی اضلاع کی ترقی پر اگلے 10 برسوں کے لیے ہر سال مشترکہ طور پر 100 ارب روپے خرچ کریں گے۔ یہ کام اندازہً ایک سال کی تاخیر کے بعد شروع ہوا اور رواں سال 24 سے 25 ارب روپے اس پر خرچ ہوسکتے ہیں جبکہ اگلے سال یہ حجم 60 ارب روپے تک ہونے کی امید ہے۔ فوجی آپریشنوں کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت اس علاقے کو قومی دھارے میں لانے کا فیصلہ ہوا۔ حکومتی کمیٹی بنی اور کم وقت میں اصلاحات کا ایک پیکج تیار کر لیا گیا۔وزیراعظم کی بااختیارکمیٹی نے عرق ریزی کرتے ہوئے اپنا قیمتی وقت ان اصلاحات پر لگایا ۔ اس کے لیے کئی دورے کیے اور قبائلیوں سے مل کر تجاویز دی ہیں ۔قبائلی عوام اصلاحات پر جلد عمل کے آرزومند ہیں۔ان کی بے چینی کی اصل وجہ دہائیوں سے کسی معنی خیز تبدیلی کی خواہش اورملک کے دیگر علاقوں سے ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جانا ہے۔ مئی2018 میں حکومت نے ایک تاریخی آئینی ترمیم منظور کی جس کے ذریعے سے وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کی نیم خودمختار حیثیت کا خاتمہ ہوگیا، یہاں کا نظم چلانے والے نوآبادیاتی دور کے قوانین منسوخ ہوگئے اورصوبائی حدود میں اس کا انضمام ہوگیا۔ اس انضمام کی بڑے پیمانے پر تشہیرغربت زدہ قبائلی علاقے میں تعمیر وترقی متعارف کروانے،عسکریت پسندی اور تنازعے سے بھرپور تاریخ کو امن و استحکام بخشنے کے طور پر کی گئی تھی۔ قبائلی علاقے میں ہونے والی ترقی پر ایک گہری نظر ان ابھرنے والے چیلنجز کی عکاسی کرتی ہے جو اس انضمام کیلئے منتخب لائحہ عمل کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ فاٹا کے عوام کو توقع تھی کہ انضمام ترقیاتی منصوبے، باقاعدہ قانونی نظام اور سماجی و اقتصادی مواقع لائے گالیکن انکو سست اور تاخیر کا شکار نظام انصاف اور مزید تنہائی کا سامنا ہے، جو کہ ان علاقوں کو مزید تشدد اور عدم استحکام کی جانب لے جاسکتا ہے۔ اگر ریاست موجودہ رفتار سے کام کرتی رہی تو ریاست مخالف عناصر اس صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ فاٹا کئی دہائیوں سے برطانوی حکمرانوں کے منظور کردہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن ( ایف سی آر) کے زیر انتظام رہا جسے بعد میں آزادی کے بعد پاکستان نے اپنا لیا ۔ افغان جنگ کا پھیلاؤ فاٹا کی اہمیت کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا باعث بنا۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے اسے ‘‘دنیا کی سب سے خطرناک جگہ‘‘ قرار دیا۔ حال ہی میں قبائلی اضلاع سے متصل علاقوں میں فاٹا کے مقدموں سے نمٹنے کیلئے دیوانی عدالتیں قائم کی گئیں ۔ پشتونوں کے مابین اختلافات اکثرجرگہ کے ذریعے ہی نمٹائے جاتے ہیں، جو کہ قبائلی سرداروں کی روایتی اسمبلی ہوتی ہے جہاں زمین کے تنازعات اور گھریلو امور سے لے کے شدید نوعیت کے جرائم تک کے معاملات پر اتفاق رائے سے فیصلہ کیاجاتا ہے۔ یہ صدیوں سے فاٹا میں حصول انصاف کا کلیدی ذریعہ رہے ہیں اور خواتین کو ان کے حقوق سے محروم رکھنے کے باجود یہ مضبوط مقامی ادارے بن چکے ہیں۔ جرگے کو لاحق خطرے کے دو پہلو ہیں: اول، فاٹا کی عوام کیلئے ثقافتی اور روایتی ہتک ، اور دوئم، رہائشیوں کو اس پر رضامند کرنے کا مشکل کام کہ ریاست کا بیمار نظام انصاف ان کی قانونی ضروریات کیلئے زیادہ بہتر ہوگا۔ آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کو تیزی سے تشکیلدیاجائے جیسا کہ مقامی آبادی کو بنیادی حقوق کی فراہمی اور انصاف تک رسائی ممکن بنانے کیلئے موثر قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدلیہ۔ اسی کے ساتھ ساتھ، عوام میں جرگے سے وابستہ ثقافتی و تاریخی لگاؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے جرگہ کے نظام کو مکمل طور پر ختم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ جرگے، جیسا کہ سرکاری فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کی جانب سے تجویز کیا گیا، فوجداری اور دیوانی مقدمات میں ایک ‘‘جیوری نظام’’ کے طور پر خدمات فراہم کرسکتے ہیں۔پاک فوج کی مسلسل قربانیوں کے باعث سابق قبائلی علاقے دہشت گردوں سے پاک کردیئے گئے ہیں جس طرح گلگت بلتستان سی پیک کے لیے اہم ثابت ہوا ہے اسی طرح قبائلی اضلاع کے راستے افغانستان اور وسط ایشیا تک پاکستانی مصنوعات کی ترسیل کی جا سکتی ہے۔ بلاشبہ ایسے عناصر سرگم ہیں جو فاٹا کے خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام‘ ترقیاتی منصوبوں اور قانونی و سماجی اصلاحات کی مخالفت کر رہے ہیں۔ یہ مخالفت پاکستان کے دشمنوں کے مقاصد پورا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ وزیراعظم کو مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلا کر تمام صوبوں کو فاٹا کے حوالے سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا کہنا چاہیے۔