وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات ’’ فاٹا‘‘ (جودوسال قبل صوبہ خیبرپختونخوا کاحصہ بناتھا)کم ازکم ایک صدی پر محیط خوں آشام تاریخ رکھتا ہے۔سن انیس سوایک میں جب انگریز سرکار یہاں پر قابض تھی تو اپنی استعماری پالیسیوں کے خلاف وقتًا فوقتًا غیور پشتونوں کی مزاحمت سے نمٹنے کیلئے کر اس نے ایف سی آر نام کا بدنام زمانہ قانون نافذ کیا۔ ایف سی آر (فرنٹیئرکرائمز ریگولیشن)ایسے قوانین کا مجموعہ تھا جو کسی بھی مہذب معاشرے میں ایک بے رحم اور غیرانسانی قانون تصور کیا جاتا تھا لیکن نام نہاد مہذب انگریز نے اپنے مفادات کیلئے ا سکا نفاذ کر ڈالا۔تقسیم ہند کے بعد حکومت پاکستان نے ایف سی آر میں چند ایک ترمیمات تو ضرور کیں تاہم یہ ظالمانہ قانون پھر بھی سات دہائیوں تک بدستور رائج رہا ۔ ایف سی آر ہی کے ہوتے ہوئے نائین الیون کے ڈرامے کے بعد ان علاقوں کے عوام پر ایک آفت یہ آن پڑی کہ اسے وارآن ٹیرر جیسی نام نہاد جنگ کا ایپی سنٹر بنایا گیا۔ بیس سال تک پشتون قبائل طالبان اور ان کے سہولت کاروں کے ہاتھوں کٹتے رہے ۔ دو ہزار چودہ میں جب ریاست نے طالبانائزیشن کے پراجیکٹ کا خاتمہ کے لیے فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا تو ان علاقوں کے ہزاروں خاندانوں کو آئی ڈی پیز بنا دیا گیا۔ اس دوران بھی ہزاروں خاندان دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوئے ۔کچھ ڈی آئی خان ، بنوں ، پشاور اور خیبر پختونخوا کے دوسرے شہروں میں پناہ گزیں ہوگئے ، کچھ حکومتی کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوئے اور بے شمار لوگ بلوچستان اور ملک کے دوسرے حصوں کی طرف اپنے علاقے سے ہجرت کرگئے۔ دوہزار اٹھارہ میں فاٹا انضمام کا فیصلہ ہوا تو سرتاج عزیز کی سربراہی میں تشکیل ہونے والی کمیٹی نے طویل ہوم ورک کے بعد فاٹا کے عوام اور اکثر سیاسی جماعتوں کو انضمام پر راضی کرلیا یوں چوبیس اور پچیس مئی کو ایوان زیریں اور ایوان بالاسے انضمام کا بل منظور ہو ا،ستائیس مئی کو خیبر پختونخوا اسمبلی نے اکثریت رائے سے ان انضمامی بل کو پاس کیا اوربالآخر فاٹا آئینی طور پر خیبرپختونخوا کا حصہ بن گیا۔ایف سی آر ختم ہوا ، سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کو ضم شدہ علاقوں تک بڑھایا گیا، این ایف سی ایوارڈ میں ان علاقوں کا اپنا حصہ مختص کیاگیا۔ انضمام کو اب دوسال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکاہے لیکن ان علاقوں کے عوام اب بھی ماضی کی طرح خستہ حال اور مختلف مسائل کا سامناکر رہے ہیں۔ ایف سی آر کاغذوں میں تو ختم ہوا لیکن دیکھا جائے تو اس کے باوجود بھی ان علاقوں میں وہی قبائلی لشکر کشیاں ہوتی رہتی ہیں۔ پچھلے سال جولائی میں لشکرکشی کے دوران اکاخیل قبیلے کے افراد کی ہلاکتیں، کرم میں بالش خیل اور پاڑہ چمکنی کے لشکروں کے مابین کئی دن تک لڑائی( جس میں دس افراد ہلاک اور تین درجن کے قریب زخمی ہوئے), جنوبی وزیرستان میں انگوراڈہ کے حدود میں احمد زئی وزیر قبائل کی ذیلی شاخ زالی خیل کے تین افراد کے گھروں کی مسماری، انہی دنوں میں مومند ایجنسی میں صافی قبائیل کی طرف سے متنازع اراضی پربننے والے دو گھروں کی لشکرکشی کے ذریعے مسماری اور ضلع باجوڑ میں تھانہ خار کے قریب لشکرکشی کے دوران فائرنگ سے دوافراد کی ہلاکت کے واقعات اس بات کی غمازی کررہے ہیں کہ ان علاقوں میں ابھی تک ہماری سرکار اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام نظرآتی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ان ضم شدہ علاقوں میںامن بھی بحال نہیں ہوا ہے ، بالخصوص ٹارگٹڈ کلنگ میں اضافہ ہورہا ہے ۔نامعلوم افراد کی طرف سے آئے روز مرد اور خواتین دونوں شہید ہورہے ہیں لیکن موجودہ حکومت امن کے قیام میں ناکام دکھائی دیتی ہے ۔ ایک ہفتہ پہلے بائیس فروری کو عین اس دن شمالی وزیرستان میں میر علی تھانے کی حدود میں چار خواتین کو اس وقت انتہائی بیدردی سے شہید کردیا گیا جب ڈی جی آئی ایس پی آر دہشتگردی کے خلاف فوجی آپریشن رد الفساد کی کامیابی سے دنیا کو آگاہ کررہے تھے ۔ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والی ان غریب خواتین کا جرم یہ تھا کہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر ایک این جی او میں سولہ ہزار روپے کی معمولی تنخواہ پر نوکری کر رہی تھیں۔ اس سے پہلے بھی ان علاقوں کے بے شمار معصوم لوگ ٹارگٹ کلنگ کے پے درپے رونما ہونے والے واقعات میں اپنی جانوں سے ہاتھ دو بیٹھے ہیں۔ وزیرستان کے مقامی صحافیوں کے مطابق صرف سال دوہزار انیس کے دوران ٹارگٹ کلنگ کے چونتیس واقعات رونما ہوئے جن میں پچاس سے زیادہ افراد شہید ہوئے لیکن ابھی تک قاتل قانون کی گرفت میں نہیں لائے جا سکے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا فاٹا کے انضمام کا ہدف صرف یہی تھا کہ ان بدقسمت علاقوں کے لوگ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی امن کو ترسے رہیں؟ ۔ کیا خیبر پختونخواکا حصہ بننے کے بعد اب بھی قربانیاں دینے والے غیور قبائل مزید زندگی کی ان بنیادی سہولتوں سے محروم رہیں گے جو دوسرے پاکستانیوں کو دہائیوں سے میسر ہیں ؟ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ دہشتگردی کے خلاف لڑنے والے ان لوگوں پر رحم کیا جائے اور انہیں سینے سے لگایا جائے۔