افغانستان کے خلاف امریکہ کی جنگ میں شمولیت ہمارے لئے ایک قومی سانحہ تھا۔ جنگ شروع ہوئی اور امریکہ نے ظلم و بربریت (Shock and Awe)کی بدترین مثال پیش کر کے مہذب دنیا کا اصل چہرہ دکھا دیا۔ طالبان پیچھے ہٹ گئے اور کوہ و دمن کی پناہ گاہوں میں چھپ گئے‘ ہارنہیں مانی‘ بدلہ لینے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ دو سال گزر گئے اسی دوران 2003ء میں جلال الدین حقانی پاکستان تشریف لائے۔ جنرل حمید گل کے گھر عشائیے پر ان سے میری ملاقات ہوئی ۔ میں نے پوچھا: ’’دشمن تو پورے ملک پر قابض ہے‘ اب آپ کا لائحہ عمل کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ’’ہم نے مجاہدین کے ساتھ اپنے روابط مضبوط کر لئے ہیں اور بہت جلد دونوں مل کر جنگ کا آغاز کریں گے۔‘‘ میں نے کہا:’’جو تباہی افغانستان نے دیکھی ہے‘ پہلے سوویت یونین کے خلاف جہاد‘ اس کے بعد خانہ جنگی اور پھر امریکہ کی دہشت گردی۔ آپ کی ایک نسل تباہ ہو چکی ہے۔ ایک او جنگ کا آپ نے فیصلہ کیا ہے۔ جنگ کے علاوہ بھی ایک راستہ ہے جس پر چل کر آپ آزادی حاصل کر سکتے ہیں‘ وہ اس طرح کہ امریکہ اپنے منصوبے کے تحت افغانستان میں جمہوری نظام قائم کرنا چاہتا ہے اور اگر آپ اس نظام کا حصہ بن جائیں تو اکثریت میں ہوتے ہوئے حکومت آپ کی ہو گی‘ فیصلے آپ کے ہوں گے اور آپ خود اپنی آزادی کے فیصلے کر سکیں گے۔‘‘ وہ خاموش رہے اور میں انہیں دلائل دیتا رہا‘ لیکن انہوں نے جواب نہ دیا۔ میں سمجھ گیاکہ اتنا بڑا فیصلہ کرنے کا انہیں اختیار نہیں ہے۔ میں نے کہا:جب آپ واپس جائیں تو ملا عمر کو میرا سلام دیں اور میرا یہ پیغام بھی۔ وہ جو کہیں گے مجھے بتائیے گا۔ دو ماہ بعد ملا عمر کا جواب آیا جسے سمجھنے سے’’ملا عمر کی تصادم کی منطق‘‘Logic of Confictکی وضاحت ہوتی ہے اور ایک حوصلہ مند قوم کا قومی اقدار کے تحفظ کے لئے قربانی کا جذبہ بھی نمایاں ہوتا ہے۔ ان کا جواب تھا: ٭ ’’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک کی مکمل آزادی تک جنگ جاری رکھیں گے اور انشاء اللہ فتح یاب ہوں گے۔ ہم پرعزم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ’’اگر تم ثابت قدم رہے تو تمہارے دشمن پیٹھ پھیر پھیر کر بھاگ جائیں گے۔‘‘ ٭ ’’اب ہم امریکہ یا پاکستان کے دھوکے میں نہیں آئیں گے‘ جیسا کہ انہوں نے 1989ء میں روس کی پسپائی کے بعد ہمیں دھوکہ دیا تھا۔‘‘ ٭ ’’افغانستان میں قیام امن یقینی بنانے کے لئے ہم شمالی اتحاد سے پرامن تعلقات قائم کریں گے جو ہمارے تمام پڑوسیوں اور دیگر ممالک کے لئے قابل قبول ہو گا۔‘‘ ٭ ’’اس جنگ میں پاکستان ہمارے دشمنوں کا اتحادی اور شراکت دار ہے لیکن اس کے باوجود ہم پاکستان کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے کیونکہ ہماری قومی سلامتی کے تقاضے اور منزل مشترک ہیں۔‘‘ ملا عمر کے یہ الفاظ‘ افغانستان کے تصادم کی منطق اور افغان عوام کی اپنے ملک کی آزادی اور قومی اقدار کی پاسبانی کی خاطر دی جانے والی لازوال قربانیوں کی واضح تشریح ہیں۔افغانیوں کی لازوال قربانیوں اور کامیاب جدوجہد آزادی نے خطے کے تذویراتی نظام کو بدل کے رکھ دیا ہے اور اب برونی جارحیت کے خلاف روس‘ چین‘ پاکستان‘ ایران اور افغانستان کے درمیان ابھرتا ہوا اتحاد حقیقت کا روپ دھار رہا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ افغانستان اور پورے خطے میں قیام امن کے عظیم مقصد کے لئے ماضی کی ناکام پالیسیاں ترک کر کے نئی حقیقت کی جانب اپنے سفر کا آغاز کرے۔ جو ایک بڑی کامیابی اور روشن مستقبل کی ضمانت بن سکتا ہے۔ ’’افغانستان اور پاکستان کی سلامتی کے تقاضے اور منزل مشترک ہیں‘‘ ملا عمر کے ان الفاظ کی وضاحت ضروری ہے ۔ افغانستان کی مثال تاریخی نوعیت کی ہے جس نے موجودہ دور کی عالمی طاقتوں کا ہمت و جوانمردی سے مقابلہ کیا ہے۔ اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ وہاں پختون اکثریت کے ساتھ ساتھ دوسری اقلیتیں بھی باقوار زندگی گزار رہی ہیں۔ اس کے باوجود کہ امریکہ نے سازش کر کے ان کے درمیان خانہ جنگی کرائی‘ وہاں اس وقت چھتیں(36) صوبے ہیں لیکن اکثریت اور اقلیت کی اپنی اپنی پہچان میں کوئی فرق نہیں آیا ہے تو کیاوجہ ہے کہ پاکستان جو چار صوبوں کا بوجھ اٹھائے پھر رہاہے وہاں بھی انتظامی اور سیاسی ضرورت کے تحت چوبیس(24) صوبے بنا دیے جائیں تاکہ ہماری سیاسی بساط جو ناہموار ہے‘ ہموار ہو جائے اور سیاسی نظام مستحکم ہو سکے۔ ایک موقع تھا کہ ہم فاٹا کو الگ صوبہ بنا دیتے لیکن یہ موقع بھی ضائع کر دیا گیا ہے جس کے منفی نتائج سامنے آئیں گے۔ پچھلی چار دہائیوں میں افغان قوم نے قومی مدافعت‘ ایثار اور ہمت کی بے مثال روایت قائم کی ہے۔ اس عرصے میں انہوں نے دنیا کی دو سپر پاور اور یورپی یونین کو شکست دی ہے اور آج دنیا کی اکلوتی سپر پاور اس کے سامنے مجبوری اور بے بسی کی تصویر بنے امن کی بھیک مانگ رہی ہے جب کہ طالبان کا مطالبہ ہے کہ ’’جب تک افغانستان کی سرزمین سے امریکہ کے ناپاک قدم نکل نہیں جاتے بات آگے نہیں بڑھے گی۔‘‘حق کی بات یہی ہے اور جب تک ان کا یہ مطالبہ پورا نہیں ہو گا‘ امریکہ اس ہاری ہوئی جنگ کا کفارہ ادا کرتا رہے گا۔ ’’جنرل مشرف نے 2002ء کے عام انتخابات کرائے تو جی ڈی اے (GDA) والوں نے ان کی بھر پور مدد کی اور ایک بار پھر عمران خان کا وزیر اعظم بننے کا خواب ادھورا رہ گیا‘اس لئے کہ ق لیگ اور ایم کیو ایم نے مخالفت کی جن کے خلاف عمران خان نے سیاسی وارگیم شروع کر دی تھی۔ مشرف نے دس سال حکومت چلائی اور سبھی ان کی حمایت کرتے رہے۔ ق لیگ والوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مشرف اگر دس مرتبہ وردی پہن کر آئیں تو ہم ان کا ساتھ دیں گے۔مشرف زیادہ پر اعتماد ہو گئے تھے۔ انہوں نے دیر‘ سوات اورباجوڑ کے علاقوں میں لشکر کشی شروع کر دی جہاں کے لوگوں نے احتجاج کیا تھا کہ انہیں پاکستانی قانون کے تحت انصاف نہیں ملتا اس لئے انہیں ریاستی قانون چاہیے۔ ان مطالبات کی معاملہ فہمی بے نظیر بھٹو میں تھی کہ جنہوں نے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے 1994ء میں ان علاقوں میں شرعی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ دے دیا تھا۔ عدالتیں بھی قائم ہونا شروع ہو گئی تھیں لیکن صدر فاروق لغاری نے ان کی حکومت ختم کر دی اور ان کے بعد نواز شریف نے حکومت بنائی تو اس کارروائی کو روک دیا۔ان مطالبات کو بغاوت کہہ کے ان کے خلاف لشکر کشی شروع ہوئی جس کے نتیجے میں مولوی صوفی محمد اور ان کے داماد فضل اللہ زیر عتاب آئے اور ہزاروں قبائلی سرحد پار افغانستان ہجرت کر گئے۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ دسمبر 2004ء میں مشرف پر راولپنڈی میں دو قاتلانہ حملے ہوئے مگر وہ بچ گئے۔ امریکیوں نے انہیں یہ سبق پڑھایا کہ اس سازش کا ماسٹر مائنڈ بیت اللہ محسود وزیرستان میں بیٹھا ہے۔ بغیر تحقیق کئے مشرف نے وزیرستان پر لشکر کشی کر دی جس سے تباہی آئی‘ ہزاروں وزیری افغانستان ہجرت کر گئے‘ وزیریوں نے پاکستانی فوج پر جوابی حملے شروع کئے اور وہ آگ جو سوات‘ دیر اور باجوڑ میں لگی ہوئی تھی‘ اس نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس طرح وہ حفاظتی دیوار جو قائد اعظم نے 1947ء میں قبائلیوں کو سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری دے کر بنائی تھی وہ ٹوٹ گئی اور قبائلیوں کی بندوقوں کا رخ ہماری طرف ہو گیا۔ 1947ء میں قائد اعظم نے پاک افغان سرحدوں کے تحفظ کی ذمہ داری قبائلیوں کو دی تھی اور جو فوج وہاں متعین تھی اسے واپس بلا لیا تھا۔2005ء میں ان قبائلیوں نے پہلی دفعہ پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے حالانکہ اس سے پہلے پچاس سال تک وہ ہمارے دست و بازو بنے رہے۔پاکستان کی دفاعی پالیسی میں ان کا کردار اتنا اہم ہے کہ اس پورے عرصے میں پاک فوج کو کبھی افغانستان کی سرحد پر اپنے فوجی دستے متعین کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ طالبان کے ساتھ حکومت نے سمجھوتہ بھی کیا لیکن ہر بار امریکی ڈرون حملوں نے ان کے قائدین کو نشانہ بنا کے سمجھوتے کو سبو تاژ کر دیا۔ مولوی نیک محمد ‘ بیت اللہ محسوداور حکیم اللہ محسود اسی طرح قتل ہوئے۔ اشتعال بڑھتا رہا اور تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد پڑ گئی‘ جس کے جوابی حملے شروع ہوئے اور دہشت گردی کا ایسا سلسلہ شروع ہوا ہے جو ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔‘‘ (ختم شد)