بعض کام بڑی خاموشی سے ہو رہے ہیں اور ہمیں پتا بھی نہیں چل پاتا کہ کوئی ہماری جڑیں کاٹ رہا ہے۔ ہم اسی بحث میں الجھے رہتے ہیں کہ میڈیا آزاد نہیں ہے۔ ہمارے تمام نشریاتی ادارے کسی کی انگلیوں کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ ہماری یہاں مراد سیاسی ایجنڈے تک محدود ہوتی ہے اور ہم اسے صرف اپنے ملکی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اس پر غصہ نکال کر ہم مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم نے حق گوئی کا حق ادا کر دیا۔ یہ بات بھی غلط نہیں مگر جب میں یہ بات کر رہا ہوں کہ میڈیا آزاد نہیں ہے تو اس سے مطلب ہمارے ملک کا میڈیا نہیں ہے بلکہ اس کا پس منظر عالمی ہے یعنی میڈیا جہاں بھی ہو آزاد نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ آزادی سیاست کے تناظر میں نہیں بلکہ وسیع تر فکری تناظر میں ہے۔ اب اگر اپنے ملک کی بات ہی کرنا ہے تو یوں کہہ لیجیے کہ ہمارے ملک میں تو میڈیا عالمی ایجنڈے پر عملدرآمد کرانے کا اتنا پابند ہے کہ وہ دانستہ ہماری تہذیبی اقدار کو ملیا میٹ کر رہا ہے اور ملک کے اندر ان عالمی قوتوں کے سلیپر سیل ہمہ وقت اس کی پشت پناہی کے لئے مصروف رہتے ہیں۔ ہم بعض مباحث پر گفتگو کی اپنے ہاں بھرمار دیکھتے ہیں۔ مری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ ایسا سب کچھ ایک پلان کے تحت ہوتا ہے۔ اصل موضوع کی طرف آنے سے پہلے ایک چھوٹی سی بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ مشرف کا دور تھا۔ میں ایک قومی اخبار کا کراچی میں ایڈیٹر تھا۔ مجھ سے ایک بہت ذمہ دار شخص نے حکومت کی طرف سے رابطہ کیا ۔ ان دنوں ہمیں حکومت کی طرف سے گویا یہ ’’چارٹر‘‘ دیا گیا تھا کہ فحاشی نہ پھیلائو اور سیاست سے اجتناب کرو۔ باتوں باتوں میں عرض کیاکہ فلاں اخبارات تو فحاشی کی حد کر دیتے ہیں‘ اس مسئلے پر حکومت بولتی نہیں۔ جواب ملا کہ وہ بھارت کے معاملے میں ہمارا ساتھ دیتے ہیں‘ اس لئے ان کو یہ رعایت دی جا سکتی ہے۔ بھارت کے بارے میں ساتھ دینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بھارت کے خلاف لکھتے تھے‘ بلکہ یہ کہ بھارت کے بارے میں رائے عامہ ہموار کرتے تھے۔ مرے لئے یہ بات تو اچھنبے کی تھی۔ مگر میں نے ایسا ظاہر کیا کہ میں اتنا دانا و بینا ہوں کہ اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ گیا ہوں۔ سو اندر کا ایجنڈا کیا ہوتا ہے اور اس پر کیسے عمل ہوتا ہے‘ اس کی بعض اوقات سمجھ بھی نہیں آتی۔ مگر اس وقت حکومتوں کے ایجنڈا سیٹنگ کی بات نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر ایجنڈہ متعین ہونے کی ہے۔ مثال کے طور پر آج کل بھی عورتوں پر تشدد پر سنا ہے ہماری انسانی حقوق کی وزارت نے کوئی مسودہ تیار کر رکھا ہے۔ بہت اچھی بات ہے مگر ہم درمیان میں ایسی باتیں لے کر آتے ہیں جو ہمارے بنیادی تہذیبی ڈھانچے کا تیاپائنچہ کر دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر اس بات کو انسانی حقوق کے خلاف بتایا گیا کہ کوئی مرد بیوی کو طلاق کی دھمکی دے یا دوسری شادی کا خوف دلائے۔ مجھے نہیںپتا اس مسودے میں یہ ہے یا نہیں‘ مگر اتنا پتا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں صرف ریپ (زنا بالجبر) ہی کو تشدد نہیں کہتیں۔ بلکہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ بیوی کی مرضی یا خواہش کے بغیر اس سے جنسی تعلقات قائم کرنا بھی تشدد ہے۔ ذرا غور کیجیے اس سے کیا پیراڈائم بنتا ہے۔ اس پسے ہوئے معاشرے میں ان تین نکات کو ساتھ رکھ کر ذرا غور کیجیے کہ کہنے والا کیا کہنا چاہتا ہے۔ میں نہ دوسری شادی کا پرچارک ہوں نہ طلاق کو اچھا سمجھتا ہوں نہ میاں بیوی کے درمیان کسی ایسی ’’مردانگی‘‘ کا قائل ہوں جو محبت و الفت کی تمام سرحدوں کو توڑ دے۔ مگر نکاح کے انسٹی ٹیوشن کو برحق سمجھتا ہوں۔ ایک طویل عرصے سے ہمارے ہاں یہ کوشش ہو رہی ہے کہ خاندان کو تتر بتر کر دیا جائے اور ایک ایسی نفسیاتی انارکی پیدا کر دی جائے کہ کچھ باقی نہ بچے۔ یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ویسے تو بے معنی ہیں‘ مگر اس کے اثرات بہت دور تک جاتے ہیں۔ ہاں‘ گزشتہ دنوں ایک خبر آئی تھی جو بس آ کر رہ گئی۔ پھر اس کا تذکرہ تک نہیں سنا۔ خبر یہ تھی کہ لاک ڈائون کی وجہ سے تشدد اور طلاق کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ پہلے روز تو اس پر اچھل کود ہوئی۔ پھر جب پتا چلا کہ یہ سروے ہمارے ملک کے بارے میں نہیں ہے جہاں لاک ڈائون ان دنوں صرف پائوں پائوں چل رہا ہے‘ بلکہ مغرب کے بارے میں تھا جہاں وہ لاک ڈائون کے زیر اثر دوچار ہفتے گزار چکے تھے۔ ان کا معاشرہ ماشاء اللہ اتنا آزاد ہے کہ میاں بیوی چند دن بھی اکٹھے تنہائی میں نہیں گزار پاتے۔ کسی نے پوچھا کہ لازمی ہے یہ تشدد مردوں کی طرف سے نہ ہو‘ بلکہ وہاں کی تو عورتیں بھی نفسیاتی اور جسمانی تشدد میں بڑی ’’ہتھ چھٹ‘‘ ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بڑی خرابیاں ہیں‘خاص طور پر نچلے اور ’’اعلیٰ ترین‘‘ طبقے میں۔ اخلاقیات اور اعتدال تو صرف اب درمیانی طبقے کا سردرد رہ گیا ہے اور یہ ساری لڑائی بھی اسی طبقے کی اخلاقیات کو توڑنے کے لئے کی جا رہی ہے۔ اس کے لئے باقاعدہ فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں۔دنیا بھر کا میڈیا تین یا پانچ ادارے چلاتے ہیں ۔ یہی نہیں ساری معیشت پر اندرخانے چند ہی ادارے قابض ہیں ۔مثال کے طور پر ہو سکتا ہے کہ آپ کوئی شرٹ خرید کر لائے ہوں۔ وہ برانڈڈ ہو۔ بڑی مشہور کمپنی مگر اس کمپنی کو بھی کوئی کولا بنانے والی کمپنی چلاتی ہو۔ ایک بار میں نے اس کی تفصیل دیکھی تھی تو دنگ رہ گیا تھا۔ پوری دنیا شاید دس اداروں کی مٹھی میں قید ہے۔ ایک بار تو صاف خبر آئی کہ پاکستان میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے امریکی کانگرس نے اتنے فنڈز مختص کئے ہیں۔ دو چار لوگوں کے نام بھی چھپ گئے۔ یہاں شور مچا تو اب ایسی خبریں شاید سنسر ہو جاتی ہیں۔ ان دنوں مشرف کے دور میں ملک میں حدود آرڈی ننس کے خلاف بحث چلی تو ہر ٹی وی چینل پر رونق لگی ہوئی تھی۔ یہ صرف لبرل ازم اور جمہوریت کے نام پر ہو رہا تھا۔ ایک نامور اینکر نے تو بعد میں تسلیم بھی کیا‘ سب نے رقم وصول کی۔ ہم نے بھی کر لی۔ معاملہ ہمارے ہاتھ سے یوں لگتا ہے جیسے نکل گیا ہو۔ بظاہر انسانی حقوق کا معاملہ بنایا جاتا ہے‘ اندر کی کہانی اور ہوتی ہے۔ کئی بار تو میڈیا بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس می ٹو کی تحریک کے نام پر کیا کچھ نہیں ہوا۔ قصور کی ایک بچی زینب کا کیس ہوا تو ہم نئی نسل کو تعلیم دینے نکل پڑے۔ایک بہت ہی قابل احترام اور سنجیدہ اینکر پرسن نے ایک بیٹے کا انٹرویو نشر کیا جس کا باپ اس سے دس سال سے زیادتی کر رہا تھا۔ یہ وہ پروگرام تھے جو بچوں کو سمجھا رہے تھے کہ انہوں نے اپنے جسم کی حفاظت کیسے کرنا ہے۔ سارے مقدس رشتوں کی دھجیاں تو اڑا چکے تھے۔ اب اس بات میں کیا پیام تھا کہ بیٹا اپنے باپ سے بھی خود کو بچائے۔ یہ سارے کام کرنے والے انسانی حقوق کے کارندے عموماً شوبز سے ہوتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں بڑی خرابیاں ہیں مگر بیسویں صدی کے شروع میں جو خرابیاں انگلستان کے منافق معاشرے میں پیدا ہوئیں اور جہاں محرمات کا احترام باقی نہ رہا‘ میں نے تو اب ایاز امیر سے چھیڑ چھاڑ پر لکھے کالموں پر بات کرنا چھوڑ دی ہے کہ اب معاملہ بہت آگے نکل چکا ہے۔ مگر یہ سب ایک منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے۔پہلے ہمارے مشاہیر کو‘ ہمارے مشترکہ ورثے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ آئین کا مذاق اڑایا گیا۔ اب مگر بات بہت دور نکلی جا رہی ہے اور ہمیں خبر بھی نہیں ہو رہی۔ اصل معاملہ یہ ہے دنیا ہمارے ہاتھ سے نکلی جا رہی ہے اور ہمیں اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اتنے خاموش انداز میں ہوتا ہے کہ ہمیں پتا ہی نہیں چلا کہ وہ قتل کریں ہیں کہ کرامات کریں ہیں۔