مولانا رْومی نے، خدا جانے، کِن حالوں کہا تھا ع از دیو و دَد ملْولَم و انسانم آرزوست اس شکایت پر سات ساڑھے سات سو برس بیت چکے۔ آبادی اس دوران، سو گنا بڑھ گئی ہو گی۔ لیکن آدمی کی عدم دستیابی، ہزار گنا بیش ہے! یہاں شکوہ عام آدمی کا نہیں، ان "خواص" کا ہے، جن کی گرفت میں انسان اور انسانیت، دونوں فریاد کناں ہیں۔ بوزنے ہیں، تو مِلے ہم کو ہمارا جنگل آدمی ہیں، تو مداری سے چھْڑایا جائے ناسٹلجیا کا ترجمہ، غالباً یوسفی صاحب نے، ماضی گزیدگی کیا ہے۔ ماضی میں کشش ہوتی بھی بلا کی ہے۔ دل میں جو نگار خانہ سجا ہوا ہے، اس میں کیسا کیسا طرح دار اور بانکا حَسِین موجود ہے! اب اس میں، کوئی اَور بار کیوں کر پائے؟ ان شبیہوں کے مقابل، آج کی مخلوق پر نظر ڈالنا، "فاعتبرویا ا ولی الالبصار" کا محل ہے! نتیجتاً، بقول ِابن ِانشا، "پھر وہی لندن پھر وہی ہم"! کہاں ہیں محمد علی جوہر؟ ظفر علی خاں کی جگہ، کیا خالی ہی رہے گی؟ کیوں اس عہد کو ایک بھی حسرت موہانی ہاتھ نہیں آیا؟ اور اس دور کی شکایت کیوں نہ ہو، جس نے دریا اور سمندر گھنگھول کر، آصف علی زرداری جیسے آبدار موتی برآمد کیے ہیں! نہیں معلوم، اس قوم سے کیا خطا ہوئی، جو بد سے بدتر کے حوالے ہوتی گئی۔ زرداری کی جگہ اب بلاول لیں گے۔ اے سبحان اللہ! اتنے "بھاری" شجرے کے ساتھ، سْدھار اور بہتری کے دعوے؟ ع ٹیڑھا لگا ہے قط، قلم ِسرنوشت کو عوام کو بڑی توقعات، عمران خان سے تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ اقتدار میں آ کر بھی، وہ ابھی تک تشریف نہیں لائے! یا ممکن ہے کہ اصلی عمران خان یہی ہوں! یہ کرکٹ والے نہیں، سیاست دان عمران خان ہیں، جن سے کسی کو واقفیت نہ تھی۔ پرانے عمران خان، اعظم سواتی کو، بیک بینی و دو گوش، کب کے رخصت کر چکے ہوتے۔ جس شخص کی سب سے بڑی خوبی، اس کا دولت مند ہونا ہے، اس کے مفلس ہونے میں کیا شک؟ کرکٹر عمران خان، اب تک سواتی صاحب کو چلتا کر چکے ہوتے، لیکن سیاستدان عمران خان؟ ہر چہ در کان ِنمک رفت، نمک شد۔ بیانات اور خطابات میں البتہ پرانے عمران خان، کہیں کہیں جھلک دکھا جاتے ہیں۔ غرض ع اصغر سے مِلے لیکن، اصغر کو نہیں دیکھا پچھلے کالم میں افغان بادشاہ امان اللہ کی بے مثال پذیرائی اور اس کا پس منظر بیان ہوا تھا۔ اب انگریزوں کی کینہ پروری اور بادشاہ کا انجام سْنیے۔ امان اللہ کے توڑ کے لیے، ایک بدمعاش بّچۂ سّقہ دریافت کیا گیا۔ بچۂ سقہ نے بغاوت کر کے، اس کا تختہ اْلٹ دیا اور بادشاہ کو بھاگتے ہی بنی۔ امان اللہ کی باقی زندگی، جلا وطنی میں ہی کٹی۔ خود بّچۂ سّقہ کا انجام بھی عبرت ناک ہوا۔ اسی پر مولانا ظفر علی خاں نے کہا تھا۔ فتح نادر خاں کو دی اللہ نے بّچۂ سّقہ کا آخر قْل ہوا ٭٭٭٭٭ خدنگ ِآخریں کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ تاریخ کی کتابیں لکھنے والا، کوئی ایک ہی شخص تھا، جس نے ہر مذہب، ہر قوم اور رْجحان کی رعایت کے پیش ِنظر، اختلافی اور نزاعی موضوعات پر حاشیے چڑھائے ہیں۔ تاریخ نویسی اور اس کے لوازمات کا جبر، جتنا مغل فرماں روا اورنگزیر عالم گیر پر گْزرا ہے، اس کی مثال کم ہی ملے گی۔ انہی تعصبات اور نا تحقیقی کو دیکھ کر علامہ شبلی نے کہا تھا تمہیں لے دے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتنا کہ اورنگ زیب، ہندو کْش تھا، ظالم تھا، ستم گر تھا یہ تماشا بھی عجیب ہے کہ جس واقعے سے، مثبت تاثر اْبھرنا چاہیے، منفی نتیجہ نکالا جاتا ہے! مثلاً عالمگیر کی اپنے بھائی سے جنگ یا اپنے باپ شاہجہاں کی نظر بندی پر، بڑی طنز اور تنقید کی گئی ہے۔ حالانکہ، انہی واقعات سے، اس کی بڑائی بھی ثابت کی جا سکتی ہے۔ اسی بادشاہ سے منسوب ایک نہایت زہریلا اور چلتا ہوا شعر بھی ہے۔ اگر قحط الرجال افتد، ازیں سہ، اْنس کم گیری یکی افغان، دوم۔۔۔ اِلَخ یہ شعر، کوئی ایسا شخص نہیں کہہ سکتا، جس کے دربار میں، اپنے سارے پیش رووں سے بڑھ کر، ہر قوم اور مِلّت کو جگہ دی گئی تھی۔ اورنگزیب کی نسبت، علامہ اقبال کے نظریات معلوم و معروف ہیں۔ ان کے خصوصاً اس شعر میں پْوری بات آ گئی ہے۔ درمیان ِکارزار ِکْفر و دیں تَرکش ِمارا، خدنگ ِآخریں دوسرے مصرع میں، اسلامی ترکش کا اسے آخری تیر قرار دیا گیا ہے۔ لیکن پہلے مصرع میں جس کارزار کا ذکر ہے، وہ اَور زیادہ غور کے لائق ہے! اورنگزیب کی علمی یادگار "فتاویٰ ِعالمگیری" ہے۔ اس بے مثال کتاب کی تکمیل آٹھ سال میں ہوئی اور اس میں پانچ سو جیّد علماء شریک ہوئے۔ زندگی کا کوئی پہلو، شاید ہی اس میں چھْوٹا ہو۔ کتاب کی جامعیت کا اندازہ یوں لگائیے کہ اس میں فرائض ِشرعیہ، نماز، روزہ وغیرہ کے ساتھ ساتھ، تجارت، زراعت، شکار اور بیع سمیت سینکڑوں موضوعوں پر فتاویٰ موجود ہیں۔ ڈاکٹر محمد حامد کا ذکر ان سطور میں پہلے بھی ہو چکا ہے۔ ان کی کتاب "دی اَن ہولی الائنس - انڈو اسرائیل کولیبریشن اگینسٹ دی مسلم ورلڈ"(ناپاک اتحاد - مْسلم دنیا کے خلاف ہندو اسرائیل اشتراک کا تفصیلی ذکر بھی ہو چکا ہے۔ ان کی تصنیف "امام شامل" کی مولانا ماہرالقادری جیسے کڑے نقاد نے بھی تعریف کی تھی۔ انہی ڈاکٹر صاحب اور ان کے رفیق زینت اللہ خان مرحوم نے اٹھارہ برس کی محنت سے، فتاویٰ ِعالمگیری کا انگریزی ترجمہ کیا ہے۔ یہ ترجمہ بیس جِلدوں اور دس ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ "دنیا کے کسی مذہب یا تمدن میں اتنے وسیع پس منظر کے بارے میں اس قدر تفصیلی ہدایات اور ہر شعبۂ زندگی کے بارے میں مفصل لائحہ عمل دینے والا کوئی اور کام موجود نہیں۔ یہ اسلام کا اتنا مکمل اور بھرپور تعارف ہو گا کہ اس سے علمی سطح پر مغرب کے تمام شکوک و شبہات مثبت انداز میں رفع ہو سکتے ہیں"۔ اس گئے گزرے دور میں، ڈاکٹر صاحب ان چند لوگوں میں شامل ہیں جو ع زخیل ِدرد کشان، غیر ِما، نماند کَسی کی مثال ہیں۔ فتاوٰی کے سلسلے میں، انہوں نے اپنا کام مکمل کر دیا۔ دیکھنا ہے کہ اسے شائع کرنے کی سعادت کِس کے حصے میں جاتی ہے! اور ع کون ہوتا ہے حریف ِمئے مردافگن ِعشق