کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ’’آزادی‘‘ مارچ اور دھرنے کے پروگرام میں شامل جماعتیں اور شخصیات زیادہ تر وہ ہیں جو تحریک پاکستان‘ قیام پاکستان اور قائد اعظم کی مخالف ہیں یا جنہیں پاکستانی فوج سے نفرت ہے؟ سب سے پہلے مولانا کو لے لیجیے؟ کیا ان کی زبان سے کبھی کسی نے تحریک پاکستان یا قائد اعظم کا ذکر سنا ہے؟ کیا 23مارچ یا 14اگست کے حوالے سے انہوں نے کبھی کوئی پیغام قوم کو دیا ہے؟ پاکستانی تاریخ کے مبتدی کو بھی علم ہے کہ دیو بند مسلک سے وابستہ جمعیت علمائے ہند نے قیام پاکستان کی بھر پور مخالفت اور کانگرس کی حمایت کی۔ اس کے مقابلے میں تحریک پاکستان کے حامی علمائے دیو بند نے 1945ء میں کلکتہ میں جمعیت علماء اسلام کی بنیاد رکھی۔ مولانا حسین احمد مدنی سے یہ فقرہ بھی منسوب ہے کہ ’’اگر پاکستان قائم ہو گیا تو ہندوستان کا دفاع کیسے ہو گا؟‘‘ مولانا فضل الرحمن جس جمعیت علمائے ہند کے وارث ہیں وہ قائد اعظم کو کافر اعظم کہتی تھی۔ اس حرکت کو مولانا شبیر احمد عثمانی نے ’’پرلے درجے کی شقاوت و حماقت‘‘ قرار دیا۔ مگر ؎ یوں بھی ہوتا ہے کہ آزادی چرا لیتے ہیں لوگ قیس کے محمل سے لیلیٰ کو اٹھا لیتے ہیں لوگ پاکستان بننے کے بعد پاکستان کے مخالف علمائے دیو بند اس جمعیت علماء اسلام میں گھس آئے جو پاکستان کی حامی تھی۔اس پر تحریک پاکستان کے سرگرم رہنما مفتی محمد شفیع مرحوم نے برملا لکھا۔ اس کے شرکا عموماً وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے نظریہ سے ہمیشہ مختلف رہے اور جمعیت علماء اسلام کے خلاف جمعیت علماء ہند سے وابستہ رہے۔‘‘ اس موضوع پر مزید تفصیل معروف محقق جناب منیر احمد منیر کے مضامین میں دیکھی جا سکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن یا ان کے کیمپ کا کوئی شخص بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ ان کی جماعت اور ان کے اکابر نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔جہاں تک اس کالم نگار کی معلومات کا تعلق ہے یہ اصحاب مولانا اشرف علی تھانوی‘ مولانا شبیر احمد عثمانی ‘ مولانا ظفر احمد عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع کا شاید ہی ذکر کرتے ہوں۔ مولانا کی پاکستان سے مخالفت کا تازہ ترین ثبوت وہ بیان ہے جو جنرل مشرف کے عہد حکومت کے دوران انہوں نے بھارت میں دیا ’’کہ ایک عدد گول میز کانفرنس بلا کر پاک بھارت سرحد ختم کی جا سکتی ہے‘‘ جناب ہارون الرشید نے یہ افسوسناک واقعہ بارہ نومبر 2017ء کے کالم میں لکھا۔ اس کی آج تک تردید نہیں ہوئی۔ ’’آزادی‘‘ مارچ اور دھرنے کے دیگر سرگرم حامیوں میں محمود اچکزئی اور اسفند یار ولی شامل ہیں۔تحریک پاکستان سے ان حضرات کی ’’وابستگی‘‘ سب پر عیاں ہے۔ افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ اور اچکزئی کے حوالے سے سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہے۔ اچکزئی ہوں یا اسفند یار ولی‘ قائد اعظم کا ذکر ان لوگوں کیلئے ایک ناجائز فعل کا درجہ رکھتا ہے۔ سب سے زیادہ پرجوش حامی اس مارچ کے میاں نواز شریف ہیں قیام پاکستان کے بارے میں ان کے جذبات کا اندازہ ان کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے ماضی قریب میں دیا۔ ہمارا ایک ہی کلچر تھا۔ ایک ہی ہمارا جو Heritageہے۔ ایک ہی معاشرے کے ہم لوگ تھے۔ وہ جو بیچ میں ایک بارڈر آ گیا ہے باقی تو آپ ہم ایک ہی سوسائٹی کے ممبران ہیں۔ آپ اور ہم جو ہیں ایک ہی کلچر ہے۔ آپ بھی رب کہتے میں ہم بھی رب کہتے ہیں۔‘‘ آلو گوشت والا بیان تو اب یوں بھی ضرب المثل بن چکا ہے۔ کالم کی تنگنائے تفصیل کی متحمل نہیں ہو سکتی ورنہ قائد اعظم کے وہ بیانات ڈھکے چھپے نہیں جن میں انہوں نے واضح طور پر‘ برملا کہا تھا کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کا کلچر‘ تہذیب ‘ ہیروز‘ یہاں تک کہ کھانا پینا سب الگ الگ ہے۔ میاں نواز شریف سے کوئی پوچھے کہ اگر ایک ہی کلچر ہے تو بھارت میں مسلمانوں کو گائے کے ایشو پر کیوں ہر جگہ قتل کیا جا رہا ہے؟ آسام میں انہیں کیمپوں میں کیوں محصور کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں؟ پاکستان کی محافظ‘ خدائے برتر کے بعد پاکستان کی فوج ہے۔ فوج سے میاں نواز شریف کو نفرت ہے۔ پاکستانی فوج سے محبت کرنے والوں میں سے کوئی بھی مارشل لاء کا حامی نہیں۔ نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے ناراضگی ہے مگر نفرت وہ پوری فوج سے کرتے ہیں۔ ایک بچے کو بھی معلوم ہے کہ پوری فوج کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ لاکھوں جوانوں اور ہزاروں افسروں کا اسٹیبلشمنٹ سے کیا سروکار؟ مگر نواز شریف پوری فوج سے نفرت کرتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین گواہی دو روز قبل ایک معروف صحافی نے دی ہے۔ یہ صحافی نواز شریف کے مخالف کیمپ کے نہیں۔ بلکہ عمران خان کی ڈٹ کر مخالفت کرتے رہے ہیں‘ کر رہے ہیں اور شریف حکومت کے واضح طرف دار ہیں انہوں نے جنرل احمد شجاع پاشا کا یہ قول نقل کیا ہے۔’’میں اپنے دور میں کبھی میاں نواز شریف سے نہیں ملا۔ مجھے شہباز شریف نے دو مرتبہ کہا لیکن میں نے جواب دیا ان کے دل میں فوج کے لئے نفرت ہے‘‘ پھر لکھتے ہیں: ’’فوج کی ہر فائل وزیر اعظم آفس میں رک جاتی تھی۔ جنرل راحیل شریف مجبور ہو کر شہباز شریف سے رابطہ کرتے تھے۔ یہ چودھری نثار کو ساتھ لے کر فواد حسن فواد کے پاس جاتے تھے اور فائلیں نکلواتے تھے۔ جنرل باجوہ کے زمانے میں بھی یہی ہوا۔ وزیر اعظم آفس میں سترہ فائلیں رک گئیں۔ ہم جنرل باجوہ اور جنرل راحیل شریف سے لاکھ اختلاف کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ دونوں جمہوریت پسند تھے۔ اور اگر میاں نواز شریف ان دونوں کے ساتھ نہیں چل سکے تو پھر یہ کسی جنرل کے ساتھ نہیں نبھا سکیں گے‘‘ یہ معروف صحافی نواز شریف کی خوبیاں گنوانے کے بعد لکھتے ہیں۔ ’’بس ان میں ایک بڑی خامی ہے اور وہ خامی فوج سے نفرت ہے‘‘ فوجی آمریت کی مذمت‘ اس کالم نگار سمیت۔ ہر محب وطن پاکستانی کرتا ہے۔ مگر کیا اس سے یہ جواز نکلتا ہے کہ فوج سے نفرت کی جائے؟ میاں صاحب کے دست راست ایک سیاسی لیڈر کے بارے میں بھی تواتر سے یہی سنا گیا ہے کہ تحریک پاکستان اور قائد اعظم کو ناپسند کرتے ہیں۔ تو کیا یہ محض اتفاق ہے کہ مارچ اور دھرنے کی اس تحریک میں شامل سیاسی قوتوں کی اکثریت قیام پاکستان اور قائد اعظم کے مخالفین پر اور پاکستانی فوج سے نفرت کرنے والوں پر مشتمل ہے؟ پیپلز پارٹی سے ہزار اختلاف کے باوجود اس پر قیام پاکستان اور قائد اعظم کی مخالفت کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ فوج سے بطور ادارہ نفرت بھی وہاں نہیں نظر آتی۔ کہا جاتا ہے کہ اعتزاز احسن نے سکھ باغی لیڈروں کی فہرست بھارتی حکومت کو دی تھی مگر اس کی تردید بھی کی جاتی ہے۔ آصف علی زرداری نے کچھ عرصہ قبل بلوچستان میں بھارت پر تکیہ کرنے والے ملک دشمن عناصر کو واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ وہ تو گائے بھی کاٹنے نہیں دیں گے۔ ایسا بیان میاں صاحب کی طرف سے بظاہر ناممکن سا لگتا ہے! پیپلز پارٹی کو جو اپنے آپ کو چاروں صوبوں کی زنجیر کہتی ہے‘ سوچ لینا چاہیے کہ وہ کن لوگوں کے ساتھ شامل ہونے جا رہی ہے۔