کشمیر کے آخری تاجدار یوسف شاہ چک کو جب مغل حکمرانوں نے پانچ صدی قبل قید اور بعد میں بسواک (بہار) جلاوطن کیا، محکوم و مجبور کشمیری قوم تب سے ہی کسی ایسی ہستی کی تلاش میں ہے، جو انکو بیدردی ایًام سے نجات دلاسکے۔ کشمیر کی آخری ملکہ حبہ خاتون (زون) کی دلدوز شاعری، جس میں دہلی کے حکمرانوں کی بد عہدی اور اپنے محبوب (یوسف شاہ) کی مصیبتوں کی داستان درج ہے، کشمیری لوک ریت کا ایک جزو ہے۔ اس مدت کے دوران اس مقہور قوم نے کئی ہستیوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا، مگر کچھ عرصہ کے بعد انکو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ غالب کا یہ شعر اس قوم پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے ۔۔چلتا ہو ں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ۔۔پہچانتا نہیں ہوں ابھی رہبر کو میں۔ 1930ء کی دہائی میں شیخ عبداللہ نے جب سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دیکر ڈوگرہ حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو کشمیر قوم نے انکو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ انکو شیر کشمیر کے لقب سے نوازا۔حال ہی میں کشمیر کے ایک معروف بیورکریٹ شاہ فیصل نے نوکری سے استعفیٰ دیکر سیاست کی پرخار وادی میں قدم رکھا۔1983ء میں ضلع کپواڑہ کے دور دراز مقام لولاب میں ایک استاد کے گھر پیدا ہوئے شاہ فیصل نے 2009ء میں انڈین سول سروسز کے مشکل ترین امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ 2016ء میں بھارتی حکومت اورمیڈیا نے برہان وانی کے مقابل انکو کشمیری نوجوانوں کیلئے ایک یوتھ آئی کون بنانے کی بھرپور کوشش کی، مگر شاہ فیصل نے خود ہی اس پر اعتراض جتا کر اس مہم کو بند کروایا۔ دلچسپ بات ہے کہ 1934ء میں جب پہلے کشمیری مسلمان قدرت اللہ شہاب نے سول سروسز میں کامیابی حاصل کی، تو شیخ عبداللہ نے مبارکباد دیتے ہوئے انکو نوکر ی ٹھکرا کر تحریک آزادی میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ مگر ایک اور سرکردہ لیڈر چودھری غلام عباس نے انکو سول سروس جو ائن کرنے کی ترغیب دیتے ہو ئے کہا کہ ـ’یہ لڑکا جہاں بھی رہیگا، ہمارا ہی رہیگا۔‘‘کشمیر کے پہلے سول سروس پاس کرنے والے ایک کشمیری پنڈت ترلوکی ناتھ کول تھے، جو بھارت میں فارن سیکریٹری کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔اکتوبر 2018ء سے ہی کشمیر میں یہ خبریں گشت کر رہی تھیں، کہ دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں طلبہ یونین کی سابق سربراہ شہلا رشید اور شاہ فیصل نیشنل کانفرنس میں شامل ہوکر بھارتی پارلیمنٹ کیلئے بالترتیب سرینگر اور بارہمولہ سے انتخاب لڑنے والے ہیں۔ مگر شاید سوشل میڈیا پرہوئے شدید رد عمل اور چند خیر خواہوں کے مشورں کے بعد انہوں نے کسی بھی پارٹی میں فی الحال شمولیت سے انکار کرتے ہوئے ایک علیحدہ لائحہ عمل اختیار کرنے کو ترجیح دی ہے ۔ کشمیر ی سیاست کے انداز کچھ نرالے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل شاہ فیصل نے خود ہی ایک کالم میں اعتراف کیا تھا کہ کشمیر میں جو لیڈران عوامی جذبات کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ اقتدار میں نہیں آتے ہیں۔ یعنی ایک طرح سے گھر کے بھیدی کی حیثیت سے انہوں نے کشمیرمیں انتخابات اور اسکے نتیجے میں معرض وجود میں آئی حکومتوں کے نمائندہ کردار کی پول کھول کر رکھ دی۔ کشمیر کی سیاست ایک طرح سے دو کیمپوں میں بٹی ہوئی ہے۔ حریت نواز کیمپ کے چوٹی لیڈران میرواعظ یوسف شاہ اور چودھری غلام عباس کی پاکستان روانگی کے بعد سے ہی یعنی 1947ء سے ہی یہ خیمہ قیادت کے بحران او رحکومتی سختیوں کے باعث قحط الرجال کا سامناکرتا آیا ہے۔ اس کا بھر پور فائدہ الحاق نواز کیمپ یعنی شیخ محمد عبداللہ اور انکے جانشینوں کو حاصل ہوا۔ 1998ء میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے معرض وجود میں آنے کے بعد شیخ خاندان کی قیادت والی نیشنل کانفرنس کی اجارہ داری اس کیمپ پر ختم ہوگئی۔ گو کہ عرف عام میں یہ کیمپ بھارت نواز کہلاتا ہے ، مگر گرائونڈ پر یہ اپنے آپ کو حق خود اختیاری کے نقیب اور دہلی مخالف کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ اس پیچیدہ سیاسی صورت حال میں شاہ فیصل کی آمد نے جہاں امیدیں جگائی ہیں، وہیں اندیشے بھی پیدا کئے ہیں۔ فیصل کے مطابق وہ سسٹم کے اندر رہ کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وہ حریت کے ساتھ اس لئے ملنا نہیں چاہتے ہیں کیونکہ وہ انتخابی سیاست میں یقین نہیں رکھتی جبکہ وہ سسٹم کے اندر رہ کر کشمیری عوام کے بیانیہ کی ترجمانی کرناچاہتے ہیں۔انہوںنے یہ بھی کہا کہ انکے انداز تکلم اور لفظوںکی صورت گری میں بھی انہی جذبات کا عکس ہوگااور استصواب ،حق خود ارادیت ،آزادی جیسی اصطلاحیں قابل ِ اعتراض نہیں۔انہوںنے اعتراف کیا کہ بھارتی فوج کشمیر میں سیاسی معاملات چلا رہی ہے جبکہ سیاسی جماعتوں کو میونسپل کاموں تک محدود رکھاگیا ہے اور عوام میں ان کی کوئی اعتباریت نہیں ہے۔ان کے اس قدم پر خاصی بحث ہو رہی ہے۔ ایک طبقہ کا خیال ہے کہ اگر وہ ایسی تبدیلی لاسکیں، جہاں صاف و شفاف انتظامیہ کے علاوہ وہ سبھی جماعتوں بشمول حریت کو ایک متوازن سیاسی اور جمہوری فضا میسر کرواپائیں، تو شاید سودا برا نہیں۔ 2003ء اور 2004ء کے ایک نہایت قلیل عرصہ میں مفتی محمد سعید کی پہلی حکومت کے دور میں حریت قیاد ت پر قد غن لگانے کے بجائے انکو گھومنے پھرنے کی آزادی دی گئی تھی۔ غالباً یہ آخری موقع تھا کہ جب سید علی گیلانی ، محمدیاسین ملک اور شبیر شاہ نے ریاست کے کونے کونے کا دورہ کیا تھا۔ شاید 2008ء اور پھر 2010ء میں کشمیر میں جو انتفادہ برپا ہوا، اسی کا شاخسانہ تھا۔ اس دور حکومت گڈ گورننس اور عوام کو خوف کی نفسیات سے باہر نکالنے کیلئے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔شاید اس وقت مفتی پر قسمت بھی مہربان تھی کہ ان کا دور حکومت ،پاکستان کے ساتھ امن مساعی کے ساتھ ہم آہنگ رہا۔صدر مشرف، اٹل بہاری واجپائی اور بعد میں من موہن سنگھ اس تین سالہ دور میں سنجیدگی کے ساتھ امن کے خاکہ میں رنگ بھرتے رہے۔ اس کے علاوہ مفتی کی یہ بھی خوش قسمتی رہی، کہ اسی دور میں جنرل وی ، جی ، پٹانکر سرینگر کی 15ویں کور کے کمانڈر متعین ہوئے ، جو عام بھارتی جنرلوں کے برعکس، تھوڑی بہت سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔ انہوں نے بھی مفتی کو ماحول فراہم کروانے میں مدد کی۔ شاہ فیصل کا استعفیٰ واقعی ایک انقلابی قدم ہے۔ تمام سیاسی قوتوں کو اس کا استقبال کرنا چاہئے ۔ مگر دیکھنا یہ ہے کیا وہ شیخ عبداللہ اور ان کے پیش روں کے برعکس اپنا وقار برقرار رکھ پائیں گے؟ کشمیر عزت و وقار کا ایک قبرستان بھی ہے۔ شیر کشمیر کہلانے والے قد آور لیڈر کا حال یہ ہے کہ کشمیر یونیورسٹی کے نسیم باغ کیمپس کے بالمقابل انکی آخری آرام گاہ پر سکیورٹی دستوں کا سخت پہرہ لگا ہوا ہے، تاآنکہ کوئی سرپھرا ہجوم اسکو نقصان پہنچا کر بے حرمتی کا مرتکب نہ ہو۔ان حالات میں کیا شاہ فیصل کشمیری قوم کی کشتی کو بھنور سے نکالنے کی سعی کریں گے یا شیخ عبد اللہ کی طرح اسکو مزید تند لہروں کے حوالے کریں گے؟ عوامی جلسوں میں شیخ عبدللہ لحن دائودی میں اکثر اقبال کی مشہور نظم کے دو بند۔ اے طائر لا ہوتی ، اس رزق سے موت اچھی ، جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتا۔ی، پڑھ کر عوام پر وجد طاری کرتے تھے۔ شاہ فیصل کیلئے یہ ایک سبق ہے کہ کیا دیگر الحاق نواز یا مین اسٹریم لیڈروں کی طرح اقتدار کی خاطر وہ کشمیر ی عوام کا سودا کریں گے یا اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر بن کر اس خطے کو اْس منجھدار سے نکالنے کی کوشش کریں گی جس میں عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے پھنسے ہوئے ہیں۔ نہ صرف بدنصیب کشمیری قوم ، بلکہ پورا جنوبی ایشیا ان کا ممنون احسان رہیگا۔