ویسے تو اسوقت شمالی بھارت کے کئی صوبے حتیٰ کہ راجستھان کے ریگزار بھی سیلاب کی لپیٹ میں ہیں، مگر پاکستان میں اسکی تباہ کاریوں نے ایک آفت مچا رکھی ہے۔ پانی کے ریلو ںمیں انسان و جانور بہنے کی اندوہناک خبریں،تباہ شدہ املاک اور وسیع تر اراضی پر فصلوں کے نقصان سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ گوکہ اس وقت ساری توجہ بچائو اور راحت کی کارروائیوں پر مرکوز رہنی چاہیے تاہم یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ آخر اس طرح کے تباہ کن سیلاب کی پیشگی اطلاع کیوں نہیں دی گئی تھی؟ خلائی تحقیق سے بادل اور بارشوں کو برسنے سے روکا تو نہیں جاسکتا ہے، مگر اس کے ذریعے اس کی مقدار اور زور کا پیشگی ادراک کرکے پلاننگ کی جاسکتی تھی۔ پچھلے کچھ عرصہ سے، خاص طور پر 2004 ء میں تباہ کن سونامی کے بعدسے ساحلی علاقوں میں مانیٹرنگ سسٹم کی تعیناتی سے بڑی حد تک بھارت میں سمندری طوفانوں سے انسانی جانوں کو بچانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس پیشگی اطلاع کی وجہ سے 2019ء میں مشرقی صوبہ اڑیسہ میں نہایت ہی شدید سمندری طوفان ’’فانی‘‘ سے ایک بڑی آبادی کو بچایا گیا۔ چونکہ 24گھنٹے قبل ہی اسکی شدت کو ماپا گیا تھا، اسلئے اس دوران 1.2ملین افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچایا گیا اور صرف 32 جانوں کا نقصان ہوا۔ جبکہ 1999ء میں اس سے کم شدت والے طوفان سے اسی علاقے میں دس ہزار افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ 2016 ء میں چین کے دورہ کے دوران تبت اور اس سے متصل یون نان صوبہ کے دور دراز اور بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان بستیوں کو دیکھنے کا موقعہ ملا۔ یہ علاقے کتنے دور دراز ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مئی میں بھی کئی علاقوں میں برف باری ہورہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ دیہی علاقوں میں بس چند فٹ چوڑے چھوٹے ندی نالوں کے اوپرمخصوص فاصلوں پر لوہے کے بلند کھمبے پیوست ہیں اور ان کے اوپر سولر پینل، کیمرہ اور پرانے زمانے کے ٹی وی کے ایریل جیسے آلات لگے ہوئے ہیں۔ کیمرہ کا لینس پانی کے اوپر فوکس ہے۔ جب میں نے اپنی مترجم شان شون وو، جو بیجنگ سے ہی ہمارے ساتھ تھی، سے اس کے متعلق استفسار کیا، تو مقامی افسران اور آبادی کا معلوم کرنے پر اس نے بتایا کہ ان آلات سے پانی کے بہائو کو مانیٹر کیا جاتا ہے اور سینکڑوں میل دور لہاسہ اور کن منگ شہروں میں قائم مانیٹرنگ اسٹیشنوں کو براہ راست اسکا ڈیٹا موصول ہوتا رہتا ہے۔ کسی بھی دور دراز علاقے کے چھوٹے سے چھوٹے نالے میں بھی پانی کے غیر معمولی بہائو کو نوٹ کیا جاتا ہے اور نشیبی علاقوں کو اسی وقت متنبہ کیا جاتا ہے اور اسے قبل یہ کوئی تباہی مچا دے، اسکا تدارک کیا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 2014ء کو جب کشمیر کو سیلاب نے اپنی لپیٹ میں لیا تھا، توبارش شروع ہونے سے صر ف دو روز قبل اس وقت کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی حکومت خطے کو خشک سالی سے متاثرہ قراردینے کے لئے کابینہ کے لئے ایک نوٹ (سمری) تیار کروا رہی تھی ۔بعد میں بتایا گیا کہ اس خطے کے دریائوں پر سینٹرل واٹر کمیشن کا مانیٹرنگ سسٹم نصب نہیں ہے، اسی لئے سیلاب کی پیشگی اطلاع نہیں مل سکی۔ کیونکہ یہ دریا سینٹرل واٹر کمیشن کے بجائے انڈس واٹر کمیشن کے تابع ہیں اور وہی ان کی دیکھ بھال اور مانیٹرنگ کی ذمہ دار ہے۔ نئی دہلی میں جب افسران سے اس کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو ان کاٹکا سا جواب ہوتا ہے کہ چونکہ کشمیر کے دریائوںجہلم، چناب اور سندھ کے پانی کا استعمال پاکستان میں کسان آب پاشی کے لئے کرتے ہیں اور بھارت کو انکا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ہے، اسلئے مانیٹرنگ کا میکنزم قائم کرنے یا ندیوںسے متعلق کسی دیگر امور میں سنٹرل واٹر کمیشن کو کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ 2014ء میں کشمیر کے سیلاب اور اس وقت پاکستان میں رونما ہوئی تباہی یہ بتاتی ہے کہ سیاسی قضیہ یا دہشت گردی امن و امان کیلئے خطرہ تو ہے، مگر قدرتی آفات اور ماحولیاتی تباہی کئی نسلوں کو متاثر کرتی ہے اور کسی دوسرے خطرے کے مقابلے انسانی جانوں کا کہیں زیادہ نقصان ہوتا ہے۔اس لئے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے اہم معاملے پر بھارت اور پاکستان کے سفارتی حلقوں میں خاطر خواہ دلچسپی کیوں نہیں لی جارہی ہے ۔ دونوں پڑسیوں کے لئے یہ ناگزیر ہے کہ وہ سندھ طاس آبی معاہدہ سے آگے بڑھ کر کوئی پائیدار میکنزم وضح کریں تاکہ سرحدکے دونوں طرف رہنے والوں کو ایسی آفات سے بچایا جاسکے۔ کچھ عرصے سے کشمیر کو ایک سیاحتی مرکز کے بجائے ایک ہندو تہذیبی ثقافت کے پروجیکٹ کے بطور متعارف کروا کر ہندو زائرین کو گلیشیر اورپانی کے ذخائر کے مراکزکو عملاً روندنے کی ترغیب دی جارہی ہے ۔ اس سال حکومت نے سات لاکھ یاتریوں کو پہلگام کے پہاڑوں میں موجود امرناتھ گپھا تک پہچانے کے انتظامات کئے تھے۔ یہ خیریت ہوئی کہ تمام تر ترغیبات کے باوجود مختلف وجوہات کی بنا پر اس سال صرف ساڑھے تین لاکھ یاتری ہی درشن کیلئے آسکے۔ مگر حکومت کا نشانہ آئیندہ چند برسوں تک دس لاکھ یاتریوں کو امرناتھ تک لیجانے کا ہے۔ جبکہ یہ علاقہ کولاہوئی گلیشرز کی پناہ گاہ ہے، جو سندھ طاس ندیوں کیلئے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ 1996ء میں ڈاکٹر نتیش سین گپتا کی قیادت میں بھارت کی ایک پارلیمانی کمیٹی نے کہا تھا کہ اگر خطے کے ماحولیاتی توازن کو درست اور محفوظ رکھنا ہے تو مذہبی یاتریوں کو ریگولیٹ کرنا ہوگا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اتراکھنڈ میں اسوقت کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) حکومت نے گنگوتری کے سلسلے میں ڈاکٹر سین گپتا کی رپورٹ کو نافذ کردیا اور 2008ء میں ہی ایک نوٹیفیکشن جاری کرکے دریائے گنگا کے منبع گومکھ تک جانے کے لئے یاتریوں کی تعداد یومیہ 150تک محدود کردی ۔ ماضی میں سری نگر کو آبی ذخائر کے وسیع جال کی وجہ سے ہی سرینگر کو مشرق کا وینس کہا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ پرانے شہر کے وسط میں نالہ مار نقل و حمل کا اہم ذریعہ ہوتی تھی۔مگر یہ وینس اب کنکریٹ اور غیر متوازن پلاننگ کی علامت بن چکا ہے۔عوامی وزیر اعلیٰ مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے1977 ء میں اقتدار میں آتے ہی نالہ مار کی بھر پائی کرکے دو رویہ سڑک بنائی، تاکہ سیکرٹریٹ سے حضرت بل اور انکے آبائی علاقہ صورہ تک جانے کی صورت میں انہیں پیچ در پیچ راستوں سے گزرنا نہ پڑے۔شہہ پاکر انکی پارٹی اور دیگر افراد نے بھی سیاسی اثرورسوخ کی بنیاد پر ، کہیں رشوتوں اور سفارشوں کے بل پر اور کہیں قوت بازو کے زور پر قبضہ جماکر ان آبی ذخائر اور چینلوں پر فلک بوس کنکریٹ عمارات کھڑی کیں۔ کسی بھی فلڈ چینل پر تجاوزات قائم کرکے اس پر نیشنل کانفرنس کا لال جھنڈ ا لگا کر اسکو محفوظ کیا جاتا تھا۔ اس فطری جغرافیہ کو چھیڑ نے کا نتیجہ یہی ہے کہ2014ء میں سیلابی ریلے نے قیامتیں ڈھا کرچشم زدن میں تمام تجاوزات کو پھلاند کر موت کا سامان بناکر رکھ دیا۔ یہ کہانی صرف کشمیر کی ہی نہیں ہے ، بلکہ پورے جنوبی ایشیاء کی ہے، جہاں جمہوریت کے پردے میں اشرافیہ کا ایک ایسا طبقہ حکمران بن بیٹھا ہے، جو احتساب سے مبرا اور لوٹ کھسوٹ میں مبتلا ہے۔ ادھر یہ بھی خبریں ہیں کہ حال ہی میں سرحدو ں کے آس پاس فوجی اسلحہ، بارودی سرنگیں اور ٹینک شکن اسلحہ بھی آبی ریلے بہاکر لے گئے ہیں۔ خدشہ ہے کہ یہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر زرعی اراضی اور رہائشی علاقوں میں چلی گئی ہونگی۔بھارت اور پاکستان پر لازم ہے کہ ماہرین کے ذریعہ اس اسلحہ کو ڈھونڈ نکالنے کا کام فی الفور شروع کریںتاکہ ان علاقوں میں زندگی ایک بار بھر معمول پر آجائے، اور کسی بڑے حادثہ سے بچا جا سکے۔جنوبی ایشیائی تعاون تنظیم سارک تنظیم کو کم از کم اس معاملے میں فعال کردار ادا کرکے ماحولیاتی ایشوز پر ایک مشترکہ موقف اپنانا چاہئے ۔ ستمبر کے وسط میں ازبکستان کے شہر سمر قند میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس ہونے والا ہے۔ اس اجلاس میں چین سمیت اس خطے سے سبھی ممالک کے سربراہ شرکت کرنے والے ہیں، اس لئے سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کی پیشگی اطلاع کا کوئی طریقہ وضح کرنے کا ایجنڈا اس میں شامل کرنا چاہئے۔ پاکستان میں سیلاب کے تھمنے کے بعد جس معاشی تباہی کا اندیشہ ہے، ظاہر ہے وہ مزید ناراضگی اور عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔اگر لیڈران خلوص نیت کے ساتھ امن اور عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، تو قدرتی آفات سے نمٹنے اور اسکے بعد بازآبادکاری کیلئے چین، بھارت، پاکستان و افغانستان کو ایک مشترکہ حکمت عملی پر غور کرنا پڑیگا۔