میںکراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل کے سینئررپورٹر کی حیثیت سے شہر بھر میں بھاگا بھاگا پھرتا تھا،ٹی وی چینلز میں کسی بھی رپورٹر کی کہنے کو تو ذمہ داری (beat) طے ہوتی ہے لیکن بوقت ضرورت اسے سب کچھ ہی کرنا پڑتا ہے پانچ فروری 2018ء کو یوم یکجہتی کشمیر کے لئے مجھے مقبوضہ کشمیر اور پاکستان میں منقسم کسی کشمیری خاندان پر نیوز رپورٹ بنانے کے لئے کہا گیا،راولپنڈی اسلام آباد میں یہ کام کراچی کی نسبت آسان ہے کراچی میں کشمیری خاندان آباد تو ہیں لیکن ایسے کسی خاندان کی تلاش جو آدھا یہاں او ر آدھا وہاں ہو مشکل تھا ،تلاش شروع ہوئی دوست احباب سے پوچھتے پچھاتے میں نارتھ کراچی کی طرف بڑی نسبت والے ایک چھوٹے سے گھر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیایہ معروف عالم دین حضرت انور شاہ کشمیری رحمتہ اللہ علیہ کے بھتیجے مولانا عبدالرشید کا گھر تھا میںایک تعلق سے وہاں پہنچا تھا اور غرض و غائت فون پر بتا چکا تھا ،اہل خانہ بہت خلوص سے ملے کشمیر کی گلابی نمکین چائے سے تواضع ہو ئی جس کی چھوٹی چھوٹی چسکیاں لیتے ہوئے میں نے کشمیر کا ذکر چھیڑا توجیسے چائے کا نمک اہل خانہ کی آنکھوں میں آگیا انکی آنکھیں بھر آئیں وطن کی یاد اور اپنوں کی محبت کا اظہار برستی آنکھوں سے ہونے لگا وہاں موجود ایک ایک باپردہ خاتون گلوگیر آواز میں کہنے لگیںمیں وہ الفاظ بیان کرنے سے قاصر ہوں کہ میرے لئے کشمیر کیا ہے میں اپنے دادا دادی سے تو نہیں ملی تایا پھپھی کے بچوں سے پہلی بار مل رہی تھی وہ مجھے گلے لگا لگا کر رو رہے تھے اور میں بھی بچوں کی طرح ہچکیاں لے رہی تھی مجھ میں اپنے بڑوں بزرگوں کی شفقت کا جو خلاء تھا جو محرومی تھی وہ پر ہونے لگی ایسی محبت ملی کہ میں سیراب ہو گئی اپنے تو اپنے اہل محلہ کو بھی جب پتہ چلا کہ شاہ صاحب کے گھر پاکستان سے مہمان آئے ہیں تو وہ یوں اشتیاق سے ملنے چلے آئے جیسے مکہ مدینہ سے آئے حاجیوں سے لوگ ملنے آتے ہیں آس پاس کے لوگوں سے گھر کا آنگن بھر گیا ،ہمیں سامنے تخت پر بٹھا دیا گیااور سامنے بیٹھے لوگ پاکستان کے بارے میں کرید کرید کر پوچھنے لگے وہ پاکستان کی باتیں کرتے تھے کوئی پوچھتا لاہور کیسا ہے اور کسی کا سوال کراچی کی آبادی سے متعلق ہوتا ان کے سوال پاکستان کی محبت سے لبریز ہوتے تھے ہم علاقے کے بازار جاتے تو دکاندار ہم سے دام نہ لیتے کہ یہ ہمارے پاکستان سے آئے ہیں ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ ہمیں زمین پر پاؤں نہ رکھنے دیں اور ہم توپہنچے ہی اسی مٹی کے لئے تھے بات بات سے بڑھتی رہی یہ غزالہ شاہ صاحبہ تھیں جو کشمیر کے ذکر پر آبدیدیہ ہو رہی تھیں یہی کیفیت ان کی بڑی بہن عابدہ شاہ کی بھی تھی جو اپنے شوہر کے ساتھ کشمیر جاچکی تھیں انکے شوہر کراچی سٹی گورنمنٹ میں کسی اچھی پوسٹ پر تھے وہ بتانے لگے جناب !منظر تو وہ تھا جب ہم واپس آرہے تھے ہمیں الوداع کہنے کے لئے پورا گاؤں آیا ہوا تھا بس چلنے کو تیار تھی اور مصافحوں معانقوں کا سلسلہ تھا کہ ختم نہ ہورہا تھاایسے میں ایک شخص مجھے کہنے لگا شاہ صاحب !مجھے پاکستان کی کوئی چیز ہدیہ کردیںمیں نے کہا اس وقت کیا دوںآپ مجھے بتادیں تو کسی آنے جانے والے کے ہاتھ بھیج دوں گا وہ کہنے لگا نہیں نہیں مجھے کوئی بھی چیز دے دیں جو پاکستان کی ہو میں اسے نشانی سمجھ کر رکھ لوں گا۔ اسکی نظریں میرے بیٹے کے کرتے پر جم گئیں میں سمجھ گیا کہ اسے میرے بیٹے کا کرتا پسند آگیا ہے لیکن اسے اس وقت اتار کر تو نہیں دیا جاسکتا تھا میں خود کو عجیب مشکل میں محسوس کرنے لگا کہ اب اسے کیا کہوں اتنے میںوہ کہنے لگا شاہ صاحب ! کچھ اور نہیں تو اپنے بیٹے کی قمیض کا ایک بٹن ہی توڑ دیں میں اسے پاکستان کی نشانی کے طور پر اپنے پاس رکھوں گا‘‘۔ کشمیری پاکستان سے ایسی ہی والہانہ محبت اور بھارت سے اتنی ہی شدید نفرت کرتے ہیں دو برس پہلے استنبول میں مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی تھی جس کے گھر اب فوج چھاپے مارتی پھر رہی ہے یہ حریت پسند نوجوان ان کے نزدیک’’آتنک وادی ‘‘ ہوچکا ہے ،یہ نوجوان آجکل شہداء کشمیر پر ایک کتاب بھی مرتب کررہا ہے پچھلے دنوں میرا رابطہ ہوا میں نے خوشگوار موڈ میں پاکستان آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا… ’’پھرپاکستان کب آ رہے ہیں ؟‘‘ جواب میں اس نے پاکستانی پاسپورٹ کی فرمائش کردی اور کہنے لگا میں انڈین پاسپورٹ پر پاکستان نہیں آنا چاہتا پاکستان ناپاک ہو جائے گا ‘‘ اس منظر نامے میں اک طرف تصویرپاکستان کی بھی ہے جواس تنازعہ کا فریق ہے اور فریق بھی وہ جس کے لئے کشمیری اپنا سب کچھ قربان کر رہے ہیں دنیا بھر میں کفن سفید ہوتے ہیں لیکن کشمیریوں نے اپنے شہیدوں کے کفن بھی سبز کر دیئے ہیں دس لاکھ فوج کے ہوتے ہوئے وہ جانے کہاں سے شہداء کے کفن کے لئے سبز ہلالی پرچم لے آتے ہیں ،کشمیری شہداء کے جنازے خود ایک ریفرنڈم ہیں بھارت کشمیریوں کا موقف خوب سمجھتا ہے وہ جانتا ہے کہ بٹوارے کے بعد سے اب تک یہ موقف نہیں بدلا جا سکا اور اب اسے پرواہ بھی نہیں کہ اسے کشمیر چاہئے کشمیری نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے بدلتے وقت کے تقاضے سمجھیں ہیں ؟غیر جانبدار تجزیہ نگار موجودہ حکومت کی کشمیر پالیسی پر سوال اٹھا رہے ہیں انکے مطابق وزیرا عظم کو جس طرح متحرک ہونا چاہئے تھا ویسی تحریک دکھائی نہیں دی،وزارت خارجہ کے کردار پر کوئی اور کیا سوال کرے گا خود حکومتی صفوں سے شیری مزاری ،شاہ محمود قریشی کی کارکردگی پراٹھ کھڑی ہوئی ہیں آصف زرداری نے کشمیر پر بلائے گئے سیشن میں کہا تھا کہ میں عمران خان کی جگہ ہوتا تو میرا جہاز ایک ملک سے ٹیک آف اور دوسرے میں لینڈ کررہا ہوتا،میں اک اک رہنما سے ملتاعمران خان نے اس معاملے پر ویسی گرم جوشی نہیں دکھائی ویسی تحریک نہیں دکھائی جسکا یہ متقاضی ہے کشمیر کے لئے اقوام متحدہ میں ایک تقریر سے فرض ادا ہوتا نہ ہی کشمیریوں کی پاک سرزمین دھرتی سے محبت کا قرض چکایا جا سکتا ہے ،ہمیں ہاتھوں کی زنجیر سے زیادہ قدموں کی تحریک کی ضرورت ہے،کشمیر کے لئے قدم بڑھانے ہوں گے وگرنہ گزرتا وقت تاریخ میں آپکامقام لکھ کر گزر جائے گا۔