قُربِ قیامت کی بے شمار نشانیاں ہیں ۔ میں نے جب سے اخبار پڑھنا سیکھا ہے( میں نے یہ صلاحیت نہایت کم عمری میں 1948 میں حاصل کر لی تھی) تب سے میں اخبارات میں قرب ِ قیامت کی نشانیوں والی خبر یں پڑھ رہا ہوں۔ اب یہ تعداد اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ مزید نشانیوں کی گنجائش نہیں رہی ۔ میرے خیال میں یہ بات بھی قربِ قیامت کی نشانی ہے کیونکہ جب قُربِ قیامت کی تمام نشانیاں ظاہر ہو جائیںتو پھر قیامت کے آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ قیامت کی بجائے ، پھر قربِ قیامت کی کوئی نشانی ظاہر ہو جاتی ہے اور قیامت postpone ہو جاتی ہے۔ میں تو عرصے سے قیامت کا منتظر ہوں لیکن قیامت کی آنکھ مچولی ختم ہونے میں نہیں آتی۔ اور قیامت خود آنے کی بجائے اپنی کوئی نشانی بھیج دیتی ہے۔ مجبور انسانوں سے یہ قیامت کا مذاق مجھے اچھّا نہیں لگتا۔ کبھی کبھی تو میں بالکل مایوس ہو کر اِس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ قیامت تک قیامت نہیںآئے گی۔ یہ نشانیاں تو لگتا ہے کہ قیامت تک پوری نہیں ہوںگی۔ چلیں کوئی بات نہیں۔ قیامت کی مرضی۔ ہم اصرار کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ انسان تو یہی کر سکتا ہے نا کہ آئے دن دوسرے انسانوں پر قیامت ڈھاتا رہے تاکہ قیامت کی غیرت جاگے اور وُہ آگے بڑھ کر انسان کی قیامت ڈھانے کی صلاحیت ختم کردے۔ لیکن مجھے یوں لگتا ہے کہ جب قیامت انسانوں کو انسانوں پر قیامت ڈھاتے دیکھتی ہے تو مطمئن ہو کر بیٹھ رہتی ہے کہ میرا کام تو انسان خود ہی کر رہے ہیں۔ مجھے پنگا لینے کی کیا ضرورت پڑی ہے۔ لیکن میری خواہش ہے کہ اگر قیامت میری التجا سُن سکے تو اُس کی خدمت میں عرض کروں کہ " قیامت بہن ! ا ب آ بھی جائو۔ بہت انتظار کر والیا ۔ ایسی بے رُخی بھی کیا ۔ ہم نے تو تمہاری سہولت کی خاطر قیامت برپا کرنے کا سامان کب سے تیار کر رکھا ہے۔ اِس وقت ہمارے پاس خُدا کے فضل و کرم سے اتنے ایٹم بم ، ہائیڈروجن بم ، نیپام بم اور گیس بم ہیں کہ یہ مختصر سی دُنیا تین سو بار تباہ کی جا سکتی ہے۔ کیا تم انسان کے اِس کارنامے کو دیکھ کر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتیں۔ ساری تیاری مکمّل ہے۔ چھوٹی چھوٹی قیامتیں تو ہم خود برپا کر تے رہے ہیں۔ اصلی تے وڈّی قیامت کے لئے ہمیں تمہارا انتظار ہے۔ خدا کے لئے جلدی آئو اور ایٹمی بٹن کو اپنی انگشتِ شہادت سے دبا دو تاکہ انسان نے جو قیامتوں کی سیریل شروع کر رکھی ہے، اُس سے نجات مل سکے ۔ اب انسان روز روز مرنے کی بجائے ایک ہی بار مرجانا بہتر سمجھتے ہیں۔ لہٰذا پیاری بہن قیامت ! چل پڑو۔ ہم تمہارے استقبال کے لئے بے چین ہیں۔ معاف کیجئے گا۔ ہلکی پھلکی گفتگو یک دم بوجھل ہو گئی۔ جیسے ہلکا پھلکا کمبل بھیگ جائے تو بوجھل ہو جاتا ہے۔ ہلکی پھلکی تحریر اگر آنسوئوں میں بھیگ جائے تو بوجھل ہو جاتی ہے۔بعض اوقات دماغ خود بخود اُن راہوں پر چلنے لگتا ہے جو اُسے خود بھی ناپسند ہوتی ہیں۔ چلیے واپس چلتے ہیں ہلکی پھلکی گفتگو کی طرف۔" قیامت کی نشانی " ـکے الفاظ میں نے سب سے پہلے نانا جان کی زبانی سُنے تھے۔ یہ غالباً 1948ء کی بات ہے۔ اُن دنوں شٹل کاک برقعے کا رواج تھا۔ اچھے اچھے گھرانوں کی خواتین بھی یہ برقعہ پہنتی تھیں۔ اُنھیں چلتے ہوئے دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ آسمان سے اُڑن طشتریاں زمین پر اُتر آئی ہیں۔ عورتوں کے لئے پردہ لازمی سمجھا جاتا تھا اور بے پردہ خواتین کوقیامت کی نشانیوں میں شمارکیا جاتا تھا۔ اِس ضمن میں اکبر الہٰ آبادی کا یہ قطعہ سُن لیں : بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں اکبر زمیں میں غیرتَ قومی سے گڑ گیا پوچھا جو میں نے" آپ کا پردہ وُہ کیا ہوا" کہنے لگِیں کہ" عقل پہ مردوں کی پڑ گیا" تو جناب ہُوا یوں کہ ایک روز مرحوم نانا جان اپنی دُکان پر بیٹھے تھے ۔ میں بھی پاس بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک بے پردہ عورت وہاں سے گزری۔ نانا جان نے پہلے تو اُسے غور سے دیکھا کہ عورت ہے یا کچھ اور ۔ دوتین بار دیکھنے کے بعد جب اُنھیں یقین ہو گیا کہ عورت ہی ہے تو فرمایا: " استغفراللہ ! " میں یہ سُن کر گھبرا گیا کیونکہ عام طور پر وُہ نانی جان کو دیکھ کر استغفراللہ کہا کرتے تھے۔ میں نے ادھر اُدھر دیکھا ۔ نانی نظر نہ آئی۔ ویسے بھی وُہ شٹل کاک برقعہ پہن کر گھر سے نکلتی تھی۔ اُسے دیکھ کر کوئی بھی اِس غلط فہمی میں پڑسکتا تھاکہ بُرقعے میں بند عورت اُس کی نانی ہے۔ جب مجھے نانی نظر نہ آئی تو میں نے نانا کی طرف دیکھا۔ وُہ لگا تار اُس بے پردہ عورت کو دیکھے جا رہے تھے۔ جب اچھی طرح دیکھ چکے تو فرمایا : " قربِ قیامت کی نشانیاں ہیں۔ عورتیں پردے کے بغیر گھر سے نکلنا شروع ہوگئی ہیں۔" ساتھ کی دُکان ان کے ایک ہم عمر حکیم کی تھی۔ وُہ جلدی سے دُکان سے اُترے ۔ نانا جان کے پاس آکر حیرت سے آنکھیں پھاڑے اُس عورت کی طرف اشارہ کر کے فرمانے لگے، " شاہ جی ! دیکھ رہے ہیں آپ! عورت پردے کے بغیر جارہی ہے۔ قربِ قیامت کی نشانیاں ہیں۔" نانا نے اُس خاتون کے نظروں سے اُوجھل ہوجانے سے پہلے اُس کا آخری دیدار کرتے ہوئے کہا۔ " ٹھیک کہا، حکیم صاحب ! قربِ قیامت کی نشانیاں ہیں! افسوس صد افسوس!" مجھے یوں لگا کہ وُہ عورت کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نظروں سے اوجھل ہونے پر افسوس کا اظہار کر رہے تھے۔ نانا جان کی چوتھی بیوی کا نام تو مجھے یاد نہیں۔ البتہ اُ س کا رول نمبر 5 تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ نانا جان پٹھان کوٹ میں ہونے والی ایک شادی میں شریک تھے۔ اُن کی چوتھی بیوی کا انتقال ہو چُکا تھا اور وہ اُسکی جگہ پُر کرنے کے چکر میں تھے۔ اتفاق سے میری ہونے والی پانچویں نانی اور اُن کی پانچویں بیوی پر اُنکی نظر پڑ گئی۔ اچانک دروازے میں ایک گوری چٹّی، خوبصورت خاتون پر اُن کی نظر پڑی جو پڑوس سے شادی میں شرکت کے لئے آئی تھی۔ اگر اُس خاتون نے برقعہ پہنا ہوتا تو کبھی میری نانی بننے کی سعادت حاصل نہ کر سکتیں۔ جب میںنانا جان کو برقعے کا سخت حامی دیکھتا تو مجھے خیال آتا انہیں عورت کی بے پردگی کا مشکور ہونا چاہیے جس کی وجہ سے پانچویں بیوی اُن کے ہاتھ لگی۔