مکرمی ! مہنگائی کے اس طوفان میں اگر کوئی چیز سستی نظر آئی تو وہ قربانی کی کھالیں تھیں۔۔ کھالوں کے ریٹس نے چار عشروں پہلے کے دور کی یاد تازہ کر دی۔مضافاتی علاقوں میں دنبہ کی کھال 20روپے میں ،بکرا 80روپے،بھینس ،کٹا، وغیرہ 100روپے اور بیل گائے کی کھال 400روپے میں فروخت ہوئیں ۔کھالوں کی فروخت میں سب سے زیادہ نقصان پسے ہوئے طبقہ کو ہوا جو عطیہ میں ملنے والی کھال سے ضرورت پوری کرنا تو درکنار بچوں کو پاپڑ لے کر بھی نہ دے سکا،ریاست کے لئے لازم ہے کہ ملک میں کھالوں کے خام مال کی کثیر تعداد سے زیادہ سے زیادہ برآمدات اور زر مبادلہ کمانے کے لئے کھالوں کی منڈیوںاور صنعت کو فروغ دیا جائے جس سے عوام الناس کا بھلا ہو اور وہ خوشحال ہو سکیں۔نئی صنعتیں لگائی جائیں ان کی مصنوعات کی زیادہ سے زیادہ تیاری ،ڈیزائن اور اقسام کی بناوٹ سے ہم ملکی ضروریات شہریوںکوکم نرخوں پر فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ قیمتی چیزیں بیرون ممالک فروخت کر سکتے ہیں۔ ( امتیاز یٰسین، فتح پور)