ایک بہت مشکل وقت میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے نئے مالی سال کا بجٹ پیش کرنے والی ہیں۔ فروری سے شروع ہونے والی کورونا وبا نے عوام‘ حکومت اور معیشت سب ہی کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ 1952ء کے بعد پہلی مرتبہ ملک کی معاشی ترقی منفی زون میں جا چکی ہے۔ اس وقت پہلا چیلنج یہ ہے کہ معیشت کی کشتی کو مکمل طور پر ڈوبنے سے کیسے بچایا جائے۔ سُن رہے ہیں کہ حکومت ایسا بجٹ پیش کرے گی جس میں نئے ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو کیونکہ طویل نیم کرفیو کی وجہ سے صنعت‘ تجارت اور خدمات سب شعبے مندی کا شکار ہیں۔ صرف زراعت میں ترقی ہوئی ہے لیکن اس سے ٹیکسوں کی مد میں قابل ِذکر آمدن نہیں ہوتی۔یوں بھی ٹڈی دل کے حملہ نے زراعت کی ترقی کو متاثر کردیا ہے۔ ان حالات میں زیادہ مناسب راستہ یہ ہے کہ حکومت اپنے اخراجات پر قابو پائے ۔ گزشتہ مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے اپنے ٹیکسوں کا ہدف ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے مقرر کیا تھا۔تاہم بعد میں اس ہدف کوکچھ کم کردیا گیاتھا۔ کورونا وبا پھوٹنے کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی۔ شنید یہ ہے کہ مالی سال کے اختتام پر حکومت کواپنے اصل ہدف کے مقابلہ میں لگ بھگ ایک ہزار چھ سو ارب روپے کے خسارہ کا سامناہے۔سرکاری آمدن میں تو کمی ہوگئی لیکن کورونا سے نپٹنے کی غرض سے جوہنگامی اقدامات کرنے پڑے ان کے باعث حکومتی اخراجات میں اضافہ ہوگیا ۔لوگوں کو امدادی رقوم بانٹی گئیں‘ عارضی ہسپتال بنائے گئے‘ ڈاکٹروں اور مریضوں کے لیے مخصوص سامان خریدا گیا۔ چھوٹے کاروباری طبقہ کے بجلی کے بل حکومت نے ادا کیے۔ آمدن کم ہونے اور اخراجات بڑھ جانے سے بجٹ کا خسارہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ تیس جون کو ختم ہونے والے مالی سال میں یہ جی ڈی پی (مجموعی قومی دولت) کے ساڑھے نو فیصد کے برابر ہوگا۔ایک مستحکم معیشت کے لیے یہ خسارہ چار فیصدتک رہنا چاہیے۔ظاہر ہے حکومت نے ملکی اور غیر ملکی قرضے لیکر اس خلا کو پورا کیا ہے۔ اندازہ ہے کہ آنے والے مالی سال میں حکومت کی آمدن اور اخراجات میںکم از کم تین ہزار ارب روپے کا فرق ہوگا۔اسے پورا کرنے کی خاطرحکومت مزید قرضے لے گی۔ وفاق کے لیے ایک بڑا دردِ سر تو بجلی کا شعبہ ہے جسکا گردشی قرضہ اندھے کنویں کی طرح ہے جس میں جتنے فنڈز ڈالتے جاؤ اسکا پیٹ نہیں بھرتا۔بجلی بنانے کی نجی کمپنیوں سے ایسے معاہدے کیے گئے جنہوں نے وفاقی حکومت کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں۔ وہ مہنگی بجلی خریدنے کی پابند ہے۔ اس پر مستزاد بجلی کی بڑے پیمانے پر چوری چکاری جسکی قیمت ایمانداری سے بل دینے والوں اور حکومت دونوں کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں حکومت بجلی خریدنے کے لیے قومی خزانہ سے تقریباًسوا دو ہزار ارب روپے خرچ کرچکی ہے۔اس کے باوجود اس وقت بجلی کا گردشی قرض دو ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ (این ایف سی) کا ہے جس کے تحت وفاقی حکومت کُل آمدن کا ستاون فیصد تو صوبوں کو ادا کردیتی ہے۔ جو رقم بچتی ہے وہ سابقہ قرضوں اور انکے سود کی ادائیگی میں صرف ہوجاتی ہے۔ وفاقی حکومت کو اپنے انتظامی اخراجات‘ دفاعی بجٹ اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے ملکی و غیر ملکی ذرائع سے قرض لینا پڑتا ہے۔قومی مالیاتی ایوارڈ پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ وفاق کا حصّہ بڑھایا جائے لیکن چھوٹے صوبے خصوصاً سندھ حکومت اس بات پرآمادہ نہیں۔ یہ ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے۔ پیپلز پارٹی اس معاملہ پر سندھی قوم پرستی کی سیاست کررہی ہے‘ صوبائی تعصّب کو ہوا دے رہی ہے۔ آنے والے بجٹ میں تو وفاقی حکومت کو سابقہ فارمولہ پر ہی گزارہ کرنا پڑے گا۔ کساد بازاری کے دور میں حکومت کی آمدن بڑھنے کے امکانات بھی نہیں۔نئے سال میں وفاق پانچ ہزار ارب روپے ٹیکسوں کی مد میں اکٹھے کرلے تو بڑی کامیابی ہوگی۔ جو کام حکومت کرسکتی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے اخراجات کنٹرول کرے۔ وزیراعظم عمران خان کے بیانات آئے ہیں کہ حکومت کے غیرضروری اخراجات کم کیے جائیں۔ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) بھی مطالبہ کررہا ہے کہ حکومت اپنے غیرترقیاتی اخراجات منجمد کرے بلکہ ایک سال کے لیے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں کچھ کم کردے۔ سرکاری اخراجات کم کرنے کے لیے طویل مدتی‘ سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے جن کے آثار فی الحال دکھائی نہیں دیتے ۔ مثال کے طور پروفاقی اور صوبائی ملازمین کی تعداد اسوقت تقریباًتیس لاکھ ہے۔ پچیس لاکھ سے زیادہ ریٹائرڈ ملازمین ہیں جو پنشن وصول کرتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تعداد کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ نصف تعداد بھی حکومتی کام بخوبی انجام دے سکتی ہے۔ لیکن اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو ملازمتوں سے محروم کرنا ایک بڑا سیاسی اور سماجی مسئلہ ہے۔ ابھی حکومت نے اسٹیل مل کے 10ہزار ملازموں کو گولڈن شیک ہینڈ دیکر فارغ کرنے کا اعلان کیا ہے جس پر سب اپوزیشن جماعتیں حکومت پربرس رہی ہیں۔ حالانکہ یہ ملازمین گزشتہ پانچ سال سے گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔ قومی خزانہ سے اس مل کے نقصان کو پورا کرنے پر سینکڑوں ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں۔ یہی حال پی آئی اے‘ ریلوے اور دیگر سرکاری اداروں کا ہے جو ہر سال قومی خزانہ سے اڑھائی سو ارب روپے ہڑپ کرجاتے ہیں۔ کوئی حکومت ان اداروں کو بند کرنے یا بیچنے کا فیصلہ نہیں کرپاتی کیونکہ اپوزیشن پارٹیاں اسے سیاسی ایشو بنالیتی ہیں۔ حکومت ڈرتی ہے کہ احتجاج ہوگا‘ ہنگامہ آرائی ہوگی‘ امن امان کا مسئلہ بن جائے گا۔لیکن اِن معاملات پر دلیرانہ فیصلے اور اقدامات کیے بغیر ملکی معیشت کو پٹری پر نہیں ڈالا جاسکتا۔کسی نہ کسی حکومت کو جرأت کرکے یہ کام کرنا ہوں گے۔قرضوں کے سہارے ملک کو طویل عرصہ تک نہیں چلایا جاسکتا۔