چین نے بعض بین الاقوامی قوتوں کی طرف سے پاکستان کو قرض میں جکڑنے کے پروپیگنڈہ کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ سی پیک منصوبوں کے لئے پاکستان کو صرف 6ارب ڈالر قرض دیا گیا ہے۔ چین ان قرضوں پر 2فیصد سالانہ کے حساب سے شرح سود وصول کرے گا۔ چینی قرضوں کی ادائیگی 2021ء سے شروع ہو گی۔ اس حساب سے 6ارب ڈالر کی یہ رقم 25سے 30برسوں میں واپس کی جا سکے گی۔ چین نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ سی پیک کے تحت دیگر منصوبوں کے لئے جاری رقوم قرض نہیں بلکہ سرمایہ کاری ہے۔ چینی کمپنیوں نے پاکستان میں توانائی منصوبوں پر 12.8ارب ڈالر لگائے ہیں۔ یہ رقم حکومت پاکستان کے ذمہ نہیں بلکہ ایک کاروباری سرمایہ کاری سمجھی جائے۔ چینی سفارت خانے کی طرف سے جاری وضاحت میں پاکستان کو 40ارب ڈالر قرض دینے کی خبروں کو غلط قرار دیا گیا ہے۔ چین پاکستان کا دیرینہ دوست اور ہمسایہ ہے۔ عشروں تک دونوں ممالک کے مابین خوشگوار اور دوستانہ تعلقات رہے۔ بین الاقوامی تبدیلیوں کے زیر اثر اب یہ گہرے تزویراتی تعلقات میں ڈھل رہے ہیں۔ چین نے گزشتہ دو عشروں میں محیر العقول اقتصادی ترقی کی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے مختلف ممالک کی معیشت پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران جن ملکوں نے امریکہ کی مخالفت کی ان کو مالیاتی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چین کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے پاس 4ہزار ارب ڈالر سے زائد کے زرمبادلہ ذخائر موجود ہیں۔ اس قدر حجم میں نقد ڈالر خود امریکہ کے پاس نہیں۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ چین اگر اپنے پاس موجود ڈالروں کا کچھ حصہ عالمی مارکیٹ میں لے آیا تو دنیا کو امریکی بلیک میلنگ سے نجات مل سکتی ہے۔ امریکہ اسی وجہ سے ڈالروں کے متعلق حساس ہے اور وہ اس کی گردش کو اپنی خواہش کے تابع رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان اپنے قیام کے کچھ عرصہ بعد ہی امریکی کیمپ کا حصہ بن گیا تھا۔ سیٹو اور سینٹو کے معاہدے کئے گئے۔ یہ الگ بات کہ ان دفاعی معاہدوں کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہ ہو سکا۔ امریکہ نے افغان جنگ پاکستان کی مدد سے جیتی۔ سرد جنگ کا نتیجہ سوویت یونین کے انہدام کی صورت نکلا۔ امریکہ فتح کے تمغے سجائے افغانستان سے نکل گیا۔ یہاں جو مجاہدین اس کی مدد کرتے رہے تھے انہیں پرامن شہری کے طور پر زندگی گزارنے کا کوئی سہارا نہ ملا۔ یہ لوگ عسکریت پسند بن گئے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی موجودہ شکل تونائن الیون کا تسلسل ہے اس سے پہلے عسکریت پسندی دوسری شکلوں میں ظاہر ہوتی رہی تھی۔ پاکستان کے مالیاتی وسائل کا بڑا حصہ سکیورٹی ضروریات پر خرچ ہوتا رہا۔ مشرقی سرحد پر بھارت نے دبائو بڑھایا۔ مجبوراً نئے ہتھیار خریدنے پڑے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ نے بار بار پاکستان کے لئے منظور شدہ فنڈز میں کٹوتی کی۔ دفاعی ضروریات اور قیام امن کے مقاصد کے لئے وسائل خرچ ہونے سے توانائی‘ ٹرانسپورٹ‘ صنعت ‘ زراعت اور روزگار کے مسائل سنگین ہوتے چلے گئے۔ اس کا نتیجہ شدید لوڈشیڈنگ اور بے روزگاری کی صورت میں نکلا۔ پاکستان نے مالیاتی مشکلات کے پیش نظر مالیاتی اداروں سے بات کی تو ان کی طرف سے کڑی شرائط رکھی گئیں۔ ان حالات میں چین نے مدد فراہم کی۔ امریکہ پاکستان کو معاشی بحران کا شکار کرکے کمزور کرنا چاہتا تھا مگر چین کی مدد نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ پاکستان میں نئی حکومت آئی تو 17ارب ڈالر کے زرمبادلہ ذخائر تیزی سے کم ہونے لگے۔ اس کا اثر سٹاک مارکیٹ پر پڑا اور سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب گئے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر تیزی سے کم ہوئی۔ یہ صورت حال بہت سنگین تھی۔ حکومت نے بحالت مجبوری عالمی مالیاتی فنڈ سے رجوع کا فیصلہ کیا تو امریکی صدروزیر خارجہ اور دیگر حکام کے بیان آنے لگے کہ آئی ایم ایف سے چینی قرضوں کی ادائیگی کے لئے رقوم جاری نہیں ہوں گی۔ اس کے بعد قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں چین سے لئے قرضوں اور سرمایہ کاری کے متعلق کئی قیاس آرائیاں ہوتی رہیں۔ ان قیاس آرائیوں میں سی پیک پر چین کی مجموعی سرمایہ کاری اور قرضوں کو نقصان دہ بتایا جاتا رہا۔ آئی ایم ایف امریکی ایما پر پاکستان سے مطالبہ کر چکاہے کہ اسے چینی قرضوں کے متعلق پوری تفصیلات فراہم کی جائیں۔ چینی سفارت خانے کی جانب سے وضاحت آنے کے بعد آئی ایم ایف اور امریکہ کے خدشات دور ہونے کا امکان ہے۔ گزشتہ صدی سپر طاقتوں کی جانب سے چھوٹے ممالک کے ساتھ خود غرضی پر مبنی تعلقات کا عہد تھی۔ دنیا اب طاقت کے کسی ایک محور کے گرد جمع نہیں ہوتی بلکہ طاقت کے ایسے کئی مرکز ابھر آئے ہیں جو ایک جگہ سے مایوس ہونے والے پسماندہ ملک کو دوسری جگہ سے ضرورت پوری کرنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ دراصل امریکہ اور چین معاشی اور مالیاتی کشمکش میں ہیں۔ امریکہ کے جنگی صلاحیت کا رعب نکل چکا ہے۔ اب اس کی اقتصادی طاقت بھی ماند پڑ رہی ہے۔ دو سال قبل چین نے اہم ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مل کر ایک بینک کی بنیاد رکھی تھی جسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا متبادل قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا مگر ایک بڑی منڈی کے لالچ میں امریکہ نے پاکستان کو نظر انداز کر کے بھارت سے تعلقات استوار کئے۔ آج وہی پاکستان افغانستان میں پھنسی امریکی افواج کے لئے انخلا کا باعزت راستہ تلاش کرنے میں مدد دے رہا ہے جبکہ بھارت امریکہ کی کسی طرح کی مدد کرنے کے قابل نہیں۔پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک کے طور پر یہ حق رکھتا ہے کہ اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر مالیاتی ضروریات پوری کرے۔ چین کی طرف سے قرضوں کے حجم کی وضاحت پاکستان کی مالیاتی اورتزویراتی پوزیشن کے لئے بہت اہم ہے۔