وزیر اعظم نے بجا طور پر یہ سربستہ راز منکشف فرمایا کہ قرضے مفت نہیں ملتے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ قرضوں کی بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ کچھ فقروں کے وقفے کے بعد وزیر اعظم نے یہ دو ٹوک عزم بھی ظاہر کیا کہ ہم کسی کے لئے کرائے کی بندوق نہیں بنیں گے۔ قرضے مفت نہیں ملتے کا سادہ سا مطلب ہے‘ ان کے عوض کرائے کی بندوق بننا پڑتا ہے جو ہم بنے۔1999میں تو ہم کرائے کا توپ خانہ بنے رہے اور آٹھ سال یہ توپ چلتی رہی۔ قرضوں کے عوض بندوق بننا چاہیے نہ توپ‘ اسی لئے وزیر اعظم جب وزیر اعظم نہیں بنے تھے‘ بار بار کہا کرتے تھے‘ دن دہاڑے اور سربازار کہ مر جائوں گا‘ جان دے دوں گا‘ قرضے نہیں لوں گا۔ اب انہوں نے قرضے لینے شروع کئے ہیں اور پانچ میں ہی قرضے لینے کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں تو اس سے کیا مطلب لیا جائے؟ کیا وزیر اعظم نے ایک ہی انٹرویو میں کچھ فقروں کے وقفے کے بعد‘ اپنی ہی بات کی تردید کر دی؟ جی نہیں ایسا کوئی مطلب نہیں لینا چاہیے کہ ہم پھر کرائے کی بندوق‘ توپ بن گئے ہو سکتا ہے‘ اس بار ہم کرائے کا بلڈوزر‘ کرائے کی ٹریکٹر ٹرالی یا کرائے کی فاکس ویگن بنے ہوں۔ توپ بندوق بننا منع ہے۔ بلڈوزر‘ ٹرالی ‘ ویگن بننا تو منع نہیں ہے۔ ٭٭٭٭٭ قرضے لینے کا جو ریکارڈ توڑا ہے تو اس کی مالیت کیا ہے۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق حکومت نے5 ماہ میں قریباً اڑھائی ٹریلین کا قرض لیا۔ بہت بڑی رقم ہے‘ بات بلین سے نکل کر ٹریلین تک جا پہنچی ہے۔ ایک ٹریلین دس کھرب کا ہوتا ہے۔ خزانہ تو لبا لب بھر گیا ہو گا بلکہ خزانے کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہو گا۔ پھر ان پانچ مہینوں میں جو نئے نئے ٹیکس‘ ان گنت اشیا پر لگائے گئے‘ تنہا انہی کی وصولی خزانے کا پیمانہ لبریز کرنے کے لئے کافی ہے۔ بجلی گیس کی مد میں جو بے حساب اضافے کئے گئے‘ وہ رقم بھی ایک آدھ بجٹ کے برابر تو ہو گی۔ لیکن یہ کیا‘سنتے ہیں کہ خزانہ پھر خالی ہے‘ اب اسے بھرنے کے لئے اسی ماہ کی کسی مبارک تاریخ کی کسی شبھ گھڑی کو ایک نیا منی بجٹ آ رہا ہے۔ خبر میں لکھا ہے کہ سینکڑوں اشیا پر ٹیکس لگیں گے۔ جو پہلے سے لگے ہوئے ہیں وہ بڑھیں گے؟ پھر وہی سوال کہ بھئی اتنی ڈھیروں ڈھیر رقم گئی کہاں؟ اتنی زیادہ رقم سے تو اچھا خاصا کوہ بنی گالہ وجود میں آ جائے گا۔؟ یہ سوال بہت پہلے بھی کسی نے کسی اور ڈھنگ سے کیا تھا۔ پوچھا تھا‘ یہ گھی کہاں گیا؟ جواب ملا‘ کھچڑی میں‘ پوچھا تو کھچڑی کہاں گئی‘ مسکن جواب ملا‘ یاروں کے پیٹ میں۔ پوچھنے والا لاجواب ہو گیا۔ امرت کا گھونٹ پی کر رہ گیا۔ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ سوال کئے بنا ہی یعنی پیشگی لاجواب ہو جانا چاہیے اور امرت نہ ملے تو کسی اور دستیاب شے کا گھونٹ پی کر رہ جانا چاہیے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے مزید کہا‘ پاکستان اور بھارت میں جنگ خود کشی ہو گی۔یقینا خودکشی نہیں کرنی چاہیے۔ ایلیٹ کلاس کو تو بالکل نہیں۔ یہ حرام کام بے کار بے حیثیت عوام کے لئے رکھ چھوڑنا چاہیے۔ کیا ان کا یہ بیان نیا ریاستی بیانیہ ہے؟ ایسا ہے تو پھر اس ریاستی بیانئے کا کیا ہو گا جس کا عنوان تھا کشمیر بزور شمشیر؟ بہرحال ‘ خاں صاحب نے کہا ہے تو مان لینا چاہیے کہ یہی راہ صواب و ثواب ہے۔ ماضی میں بے نظیر نے یہی بات کہی ‘شہید کر دی گئیں۔ نوازشریف نے کہا‘ زندہ شہید بنا ڈالے گئے۔ اور ایک بارنہیں دو بار۔ پہلی بار کارگل کے موقع پر۔ نواز شریف نے کہا‘ سری نگر کی آزادی کا راستہ کارگل سے ہو کر نہیں جاتا۔ دس سال کے لئے جلا وطن کر دیا گیا۔ بیچ میں اور بھی بہت کچھ ہوا۔ہم کارگل گئے۔ پھر دیکھا تو گلی بند تھی۔ آگے سے تو تھی ہی پیچھے سے بھی بند ہو گئی۔ پرویز مشرف نے ایک شام اعلان کیا‘ معاملہ حل کرنے کے لئے نواز شریف آج رات امریکہ جائیں گے۔ وہ گئے۔ کلنٹن صدر تھے ‘ ان کی منت کی۔ ترلے کئے‘ پائوں پکڑے۔ کلنٹن کا دل پسج گیا اور یوں بند گلی کھلی۔ پوری کہانی اور اس کے بعد کی بھی جنرل شاہد عزیز کی کتاب میں لکھی ہے۔ وزیر اطلاعات کا بیان بعض اخبارات میں چھپا ہے۔ فرمایا ’’خدشہ ہے کہ باہر سے لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں لائی جا سکے گی‘‘ بیان کا صیغہ غیر حتمی اور گمانی ہے‘ دو لفظ یعنی ’’خدشہ ہے‘‘ نکال دیے جائیں تو بیان حتمی بھی ہو جائے گا اور یقینی بھی۔ لوٹی دولت سے مراد وہ دولت ہے جو نواز شریف نے لوٹی۔ دیگر احباب کی رقم لوٹی ہوئی کی مد میں نہیں آتی کہ کسی نے جرمانہ دے کر چالیس ارب کی جائیداد جائز کر الی تو کسی نے 60ارب کی اور کئی تو ایسے بھی ہیں کہ جرمانہ دیے بغیر ہی ناقابل دست اندازی قرار پائے۔ چنانچہ یہی نواز شریف والی دولت ہی ہے جس کے تخمینے الگ الگ ہیں۔ خاں صاحب اس کی مالیت 3ہزار کروڑ بتاتے تھے۔ مراد سعید کے بقول دو سو ارب ڈالر۔ دونوں رقوم میں زمین آسمان کا فرق ہے۔25دسمبر کو قائد اعظم کے بارے میں تصویری نمائش کے موقع پر پنجاب کے وزیر اطلاعات نے کہا کہ شریف خاندان نے 166کھرب روپے لوٹے۔ یہاں تو فرق ساتویں آسمان سے بھی سات گنا آگے نکل گیا۔ یہ 166کھرب واپس آ جاتے تو کتنے کام سنور جاتے۔ بھارت کو 50کھرب دے کر کشمیر لے لیتے۔ اتنی رقم کے عوض وہ کشمیر کے ساتھ جونا گڑھ بھی واپس کرنے کو تیار ہو جاتا۔ ہاں‘ حیدر آباد دکن شاید نہ دیتا۔ خیر‘ حیدر آباد دکن کا ہم نے کرنا بھی کیا ہے‘ ہمارے پاس اپنا حیدر آباد ہے (اتفاق سے وہ بھی دکن یعنی جنوب میں ہے) 50کھرب ہم بنگلہ دیش کو دیتے تو وہ جھٹ سے دوبارہ مشرقی پاکستان بن جاتا۔ 66کھرب پھر بھی بچ جاتے آدھی رقم سے ہم قرض اتارتے باقی سے کچھ اللوں پر لگاتے کچھ تللوں پر۔ خیر‘ اب تو وزیر اطلاعات نے سنائونی سنا دی کہ یہ رقم نہیں مل سکتی‘ صبر کے سوا چارہ ہی کیا رہا۔