نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی عزت پر خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا دشمنان دین کا مسئلہ ہی قرآن اور صاحب قرآن ہے کہ یہ قرآن ان کی فطرت بد اور تیرہ باطن کا پردہ چاک کرتا ہے۔ ان کے پاس قاطع برہان نہیں تو وہ اس برہان کو نذر آتش کرنے پر اتر آتے ہیں۔ وہ اس کتاب مقدس کے براہین و فرامین کو نفرت انگیز اور شر انگیز قرار دیتے ہیں کہ اس میں ان کے دلوں کے حال اورا ذہان کی کیفیت کو طشت ازبام کردیا گیا ہے۔ وہ غصے اور انتقام میں یہ تک بھول جاتے ہیں کہ ان کی بے جا دشمنی اور سفاکانہ مخالفت ہی قرآن مجید کے دعوے کو سچ ثابت کرتی ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کے دشمن ہی نہیں بلکہ ان کی مخالفت میں سب ایک ہو جاتے ہیں۔ ان کی اس اسلام دشمنی پرکوئی کیا کہے ۔ وہ آئے دن آزادی اظہار کے نام پر ناپاک جسارت کرتے ہوئے توہین آمیز خاکے بناتے ہیں مگر چاند پر تھوکنے سے ان اپنے منہ گندے ہو جاتے ہیں کبھی وہ قرآن پاک کی بے حرمتی کرتے ہیں جب کوئی انہیں کہتا ہے کہ اس آزادی اظہار کے نام پر آپ ہولوکاسٹ پر بات کیوں نہیں کرتے تو ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ ناروے میں ایک بدنیت شخص نے قرآن کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کی اور اس مرحلے پر ایک مسلمان نوجوان الیاس عمر نے غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس شیطان کو اس قبیح عمل سے روکا جسے گرفتار کرلیا گیا۔ آپ ان کا دہرا معیار اور دوغلی پالیسی دیکھیں کہ قرآن کے بے حرمتی کرنے والا آزاد اور اس ناپاک جسارت کو روکنے ولا مجرم ٹھہرتا ہے۔ تمام عالم اسلام میں جہاں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی وہیں ہمارے ہاں جنرل آصف غفور نے ٹویٹ میں بہادر الیاس عمر کو سلام پیش کیا اور ہماری حکومت میں ناروے کے سفیر کو طلب کرکے پاکستانیوں کے شدید تحفظات سے آگاہ کیا کہ اس قسم کی حرکت عالم امن کو تباہ کرنے کی کوشش ہے۔ یہ وہی اسلامو فوبیا ہے جس کا تذکرہ کچھ عرصہ قبل عمران خان نے اپنی تقریر میں کیا تھا۔ ہمارا دین اسلام تو ہے ہی سلامتی،یہ انسان کی امن و آشتی کا ضامن ہے۔ کیسی بات ہے کہ کفر قرآن کے پیغام سے خوفزدہ اور لرزہ براندام ہے مگر مسلمان اس سے بے نیاز ہے ’’اور تم خوار ہائے تارک قرآں ہو کر‘‘ انہیں کچھ خبر نہیں کہ ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‘‘ یہی ہمارا المیہ ہے۔ کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا پھر اقبال نے شیطان کی زبان سے دین کے دشمنوں کی خواہش کو آشکار کیا۔ وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو مسلمانوں کو خواب غفلت سے جاگنا ہو گا، اپنی عظیم میراث کو جاننا ہوگا۔ بہرصورت قرآن کا فہم اور ادراک ضروری ہے۔ اللہ بھی تو یہی کہتا ہے کہ تم تدبرکیوں نہیں کرتے۔یہ کتاب تمہیں زندگی کرنا سکھاتی ہے اور جینا مرنا بھی۔ آقاؐ نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن پڑھتا ہے اور پڑھاتا ہے۔ یہاں پڑھنے سے مراد صرف تلاوت نہیں بلکہ اس کتاب مبین کے پیغام کو اندر اتارنا اور اس کے مطابق خود کو سنوارنا ہے۔ وگرنہ دوسری صورت میں یہ کتاب لاتعلق رہنے والے کے خلاف قیامت کو گواہی دے گی۔ اس کتاب کا فہم رکھنے والا اپنی ذمہ داریاں پہنچانتا ہے۔ یہ زندگی کا نصاب ہے، لائحہ عمل ہے اور ہر مسلمان کا نصاب ہے۔ ہم نے تو اسے اختیاری ہی نہیں رہنے دیا جبکہ یہ لازم ہے اور امتحان صرف اسی کا ہونا ہے۔ اس سے دوری اپنے آپ سے دوری ہے۔ صد شکر کہ ٹھوکریں کھا کر اب مسلمانوں نے اس کی طرف رجوع کرنا شروع کیا ہے۔ ناروے کے واقعہ کے بعد کی ایک تصویر میں وہاں ردعمل کے طور پر وہاں کے مسلمانوں نے قرآن کا مطالعہ شروع کیا۔ تبدیلی اسی سے آئے گی کہ اللہ کا کلام ہے اور اس کا آغاز ہی اقرأ سے ہوا اور یہ حرف معتبر ہے جو ہر قفل کی کلید ہے۔ وہ لوگ رشک کے قابل ہیں جو اس کے درس و تدریس کام کرتے ہیں۔ دین کے دشمنوں کو ایسے ہی جواب دیا جاسکتا ہے کہ ہم قرآن کو سینے سے لگائیں اور اسے دل میں اتارلیں۔ اب قرآن ہی سے وابستہ ایک نورانی محفل کا تذکرہ کہ ہمارے دوست اور جماعت اسلامی کے رہنما ملک شفیق نے جوکہ علاقہ عربی کے امیر بھی ہیں، نے اپنے گھر پر تنزانیہ اور مصر سے آئے ہوئے قرأ کو مدعو کر رکھا تھا۔ خاص طور پر قاری رجا ایوب نے تو تلاوت سے سماں باندھ دیا۔ ملک شفیق نے بتایا کہ قاری رجا ایوب عالمی شہرت کے حامل ہیں انہیں قاری باسط ثانی کہا جاتا ہے۔ وہ دو تین ماہ کے لیے دنیا کے دورے پر مدعو ہیں اور وہ اپنے گھر صرف پندرہ روز گزاریں گے۔ مجھے قاری رجا ایوب کی یہ بات بہت پسند آئی کہ اس نوجوان میں عجزو انکسار تھا اور اس نے تلاوت شروع کی اورسانس لینا تو شاید وہ بھول ہی گیا۔ ہر طرف سبحان اللہ اور جزاء اللہ کی آوازیں ہی آ رہی تھیں۔ دوسرے قاری مصر سے تھے۔ ان کا نام تھا کمال عبدالغنی تھا یہ بھی ایک خوبرو نوجوان تھا۔ اس نے اپنا لباس اور وضع قطع میں طمطراق رکھا ہوا تھا۔ اس کی قرأت بھی بہت اچھی تھی۔ میں نے ان سے مزید سنانے کی فرمائش کی مگر ان کے سپانسر جناب قاری حنیف فریدی نے کہا کہ انہوں نے انہی پانچ جگہ قرأت کرنی ہے۔ قاری حنیف تو تجوید کے ساتھ قرآن لکھ رہے ہیں۔ یہ لوگ خوش قسمت ہیں کہ قرآن کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ایک قاری وقار احمد چترالی منصورہ سے آئے تھے۔ ان سے بھی ہم نے قرأت سنی۔ انہیں میں سیرت کانفرنس میں بھی سن چکا تھا۔ مرغزار سے ڈاکٹر ناصر قریشی، غلام عباس جلوی اور کئی دوسرے دوست مدعو تھے۔ اہتمام کام و دہن بھی کمال کا تھا۔ مہمانوں کے لیے بنایا کھانا ہمارے لیے تو پرہیزی قرار پایا۔ مہمان قرأ اس عزت و اکرام پر بہت شاداں تھے۔ مرغزار کالونی کے ہر دلعزیز صدر شہزاد چیمہ نے مہمانوں کو بڑی محبت سے سیرت کانفرنس میں دعوت دی جو اتوار کو منعقد ہونے جا رہی ہے۔ بس اسی اہتمام کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے گھروں میں قرآن و سنت کی فضا قائم کریں۔ اس حوالے سے مل بیٹھنا اللہ کو کتنا پسند ہے اور گھر کی خیر و برکت کے لیے یہ کتنا اہم ہے۔ یہ قرآن لفظ لفظ روشنی ہے اور نور ہے، حکمت و بصیرت ہے اور حضورؐ کی سیرت ہے۔