کبھی غور نہیں کیا تھا کہ ہائوس ا ریسٹ یا سب جیل کیا ہوتی ہے۔وبائی امراض کی بھی عجیب قسمیں ہوتی ہیں پھیلنے پر آ جائیں تو رکنے کا نام نہیں لیتے۔ میڈیکل سائنس کی تمام ریسرچ روزانہ کی بنیاد پر نئے تدابیر تشخیص کے مختلف طریقے اور علاج کے مختلف حربے استعمال کرنے میں دن رات مصروف عمل ہے۔ان حالات میں ڈاکٹرز انتہائی پریشان ہیں۔ ڈاکٹر اس وقت اطمینان کا سانس لیتا ہے جب مریض تشخیص کے بعد ان کی تجویز کردہ نسخے سے صحت یاب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ مایوسی اس وقت چھا جاتی ہے جب تشخیص کے باوجود مریض پر دوائی اثر پذیر نہ ہو۔آج کل ہم سب معالجین کے لئے اس کورونا وائرس کی وبا کو کنٹرول کرنا وبال جان بن چکا ہے۔اس مرض کے پھیلنے کے اسباب بھی مختلف ہے ہم نے ہر قسم کی احتیاطی تدابیر اپنانے کی بھر پور کوششیں کیے۔ چہرے پر ماسک سے لے کر ہاتھوں میں دستانے سینی ٹائزر کا جا بجا استعمال ہجوم سے دور رہنے سوشل ڈسٹینگ بے جا بازاروں میں جانے سے لے کر رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے تک کی تمام احتیاطی تدابیر کا ضامن خیال رکھتے ہوئے بھی اس موذی مرض کا شکار ہو گئے۔ہسپتالوں میں مریضوں کے معائنے اور علاج کرنے کے لئے حفاظتی سامان کا بھر پور استعمال کے باوجود جتنی ممکن ہو سکے احتیاط سے کام لیا پھر بھی اس وقت بشمول میرے اور 60سے 70کے قریب سینئر اور جونیئر ڈاکٹرز اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔کچھ دوستوں کو اللہ تعالیٰ نے شفایات کروایا اور اس وقت تک ہمارے پانچ سینئر ڈاکٹرز اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔چند ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور باقی ڈاکٹرز اس وقت قرنطینہ میں زندگی کے لئے پرامید ہو کر دن گزار رہے ہیں۔ایک کمرے میں بند ہو کر چودا دن گزارنے چلے جائیں تو خیال آیا کہ جیل کی بھی درجہ بندی شخصیات کے جرائم کے حساب سے کیا جاتا ہے کلاس Aسے لے کر گھر کو سب جیل قرار دینا بھی انہی درجہ بندی کی ایک قسم ہے۔ ڈاکٹرز اپنی اپنی مصروفیات کی وجہ سے زیادہ وقت ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ گزارنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ہفتے وار چھٹی والے دن بھی خوش قسمت وہی ڈاکٹر حضرات ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کو ٹائم دے سکیں اکثر تو چھٹی والے دن بھی ہسپتالوں میں آن کال ہوتے ہیں۔مجھے جب اس بیماری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئے تو میں نے خود کو اس قیدی کی مانند تصور کیا جس کو سزا بھگتنے کے لئے اسکے گھر کو سب جیل قرار دیا جاتا ہے۔فرق صرف اتنا ہی تھا کہ قیدی کو یہ سہولت جج صاحب کی آرڈر سے ہوتا ہے اور ہمیں سہولت خود اپنے ہی آرڈر سے جاری کرنا پڑا۔اس کے بعد چودا دن گزارنے کے لئے کمرے کو جیل کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔دوستوں سے فون پر حال حوال ہوتا تھا اکیلے پن محسوس کرنے میں کیسے کیسے خیال آتے تھے۔کچھ تلخ حقائق آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں دن بھر کی اداسی خود ساختہ بندش کھانے پینے کی طلب ہو تو گھر کے اندر موبائل فون پر اطلاع دینا کھانے پینے کی چیزوں کو خود ٹکانے لگانا اپنے سب سے قریبی پیاروں کو آپ سے خوف آنا ،صبح ہوتے ہی پھر احساس محرومی کی لمحہ بہ لمحہ گزارنے اور ایک سوچ کا انسان کے اندر پیدا ہونا قدرتی عمل ہے۔ایک ایسی بیماری جس کے بارے میں نہ پہلے سوچا اور نہ پڑھا تھا۔خوف کا یہ عالم انسان کو اللہ تعالیٰ کے انتہائی قریب لے جانے اور ان کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل کرنے کا انوکھا موقع میسر آتا ہے۔اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف جن قوموں پر اللہ کی نافرمانی پر جو عذاب نازل ہوا وہ سب سامنے آ جاتے ہیں۔ جن قوموں نے اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق زندگی گزارنے کے طریقے نہیں اپنائے وہ قومیں مٹ چکی ہیں۔ انسان انتہائی خود غرض اور بے حد کمزور ہوتا ہے۔جب مصیبت آن پڑتی ہے تو فوراً اللہ کو یاد کرتا ہے اور مصیبت ٹل جانے کی صورت میں اپنی پرانی حرکتوں سے باز نہیں آتا۔ ان دنوں بیماری میں مبتلا انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔بحیثیت ایک انسان جو ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں کیا ہم ان ذمہ داریوں کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں سے نبانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ عید کے اس موقع پر انتہائی بے احتیاطی سے لوگوں کا آپس میں میل جول آنیوالے دنوں میں اس بیماری کی تیز رفتاری سے پھیلنے کا سبب بنے گی۔ کاش بحیثیت انسان اگر اس بیماری کی شدت کو ہم محسوس کر سکتے تو آج یہ عالم نہ ہوتا ۔خوف خدا نام کی کوئی چیز نہیں ،سب کچھ جانتے ہوئے بھی بے خبر رہنے کی عادت ہماری پہچان ہے۔ماہ رمضان کی آڑ میں مہنگائی کا طوفان کھڑا کرنا۔ہر چیز کی دگنی قیمت وصول کرنا، چیزوں کا مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کر کے ڈبل قیمت وصول کرنا اشیاء خورو نوش کی ہر چیز میں ملاوٹ جھوٹ و فریب اور بے جا قسمیں کھانا ہماری معاشرے کی پہچان بنتی جا رہی ہے۔ کیا قیامت کا ہم نے صرف سنا ہے۔ کیا یہ وقت قیامت سے کم ہے کہ انسان اس بیماری میں مبتلا ہو کر ان کے سب سے عزیز رشتہ دار انہیں ملنے سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔کیا ہم نے اس سے پہلے قوموں پر عذاب نازل ہوتے ہوئے نہیں پڑھا ،جو اپنے اعمال کی وجہ سے نافرمانی کی آخری حدود کو کراس کر چکے تھیں۔ کیا ہم نے ان سے بھی سبق نہیں سیکھا۔آج بھی اگر ہم نے ایک ذمہ دار قوم ہونے کا ثبوت نہیں دیا تو آنے والی قومیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔یہ وبا کتنی تیزی سے پھیل رہا ہے ہم سوچ بھی نہیں سکتے آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ جو بندہ فون پر خیریت پوچھتا تھا، سب فرما رہے تھے کہ علاقے میں کوئی گھر ایسا نہیں جس میں بندوں کو کورونا کے علامات نہ ہوں اور روزانہ کی بنیاد پر شرح اموات میں اضافہ نہ ہو رہا ہو۔کوئٹہ میں ہسپتالوں کا حال یہ ہے کہ خالی بیڈ بمشکل سے ملتا ہے اور اگر یہ عالم رہا اور لوگوں نے خود شعور کا ثبوت نہیں دیا تو اس مرض کو کنٹرول کرنا ڈاکٹرز کے بس سے نکل جائے گا۔ اس بیماری سے بچنے کے جو احتیاطی تدابیر ہم اختیار کر رہے ہیں وہ محض چند فیصد لوگ اس پر عمل پیرا ہے جن لوگوں کو اس بیماری کی شدت کا پتہ نہیں ان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔میں نے بحیثیت ایک ڈاکٹر اپنے قریبی دوستوں کو اس بیماری میں مبتلا ہوئے بہت قریب سے دیکھا اور اس قرب کو جتنا میں محسوس کر سکتا ہوں شاید کوئی اور نہیں لہٰذا میں نے اپنا فرض سمجھتے ہوئے عوام کے لئے چند فقرے تحریر کئے کہ شاید جو احتیاطی تدابیر بتائے گئے ہیں ان پر عمل کریں تو یہ بیماری اتنی تیزی سے نہیں پھیلے گی اور شرح اموات میں بھی کمی آئے گی ورنہ بصورت دیگر ہسپتالوں میں مریضوں کے لئے بستر میسر نہیں ہونگے۔ لہٰذا ہمیں ایک ذمہ دار قوم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ان ہدایات پر عمل کرنا چاہئے جن پر چل کر ہم اس وبا سے محفوظ رہ سکیں گے۔