مایوسی گناہ ہے مگر زمینی حقائق سے چشم پوشی خودکشی بھی۔افراد ہوں یا اقوام امید ان کے لئے زندگی کی علامت ہوا کرتی ہے۔ہماری تو امیدیں باندھنے کی بھی ایک تاریخ ہے۔ پہلی بار تحریک پاکستان کے دوران اسلامی‘خود مختار اور آزاد وطن کی امیدیں باندھیں جو ہماری سیاسی ناپختگی‘ اقتدار کے لالچ اور آمرانہ و حاکمانہ سوچ سے چکنا چور ہوگئیں۔ دوسری بار ذوالفقار بھٹو نے پاکستانیوں کی آنکھوں میں اسلامی سوشلزم کے نام پر روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کی صورت میں سماجی مساوات کے خواب سجائے جو وطن کے دولخت ہونے اور استحصالی نظام کے باعث ایک بار پھر آمریت پر منتج ہوئے۔ پھر جمہوریت کے نام پر باریوںکی صورت میں جمہور سے مذاق اور قومی وسائل کی لوٹ مار نے پاکستانیوں کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا۔ یاس اور تاریکی کے اندھیروں میںاکتوبر 2011ء کا سورج طلوع ہوا اور پاکستانی ایک بار پھر نئے پاکستان کے سحر میں گرفتار ہو گئے۔2013ء کے الیکشن میں کامیابی کے بعد تحریک انصاف کے کے پی کے میں تعلیمی اور سماجی اصلاحات اور عمران خان کے ڈی چوک میں 126دن تکپاکستان کو عظیم مملکت بنانے کے دعوئوں نے عمران خان کو مڈل کلاس کی آخری امید بنا دیا اور 2018ء کے انتخابات میں پاکستان کی مڈل کلاس نے اپنی امیدوں کے خواب عمران خان کی جھولی میں ڈال دیے اور آزاد معیشت‘ خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان کا انتظار کرنے لگے مگر عمران خان کے یوٹرن پہ یوٹرن نے پاکستانیوں کو بقول احمد فراز یہ سوچنے پر مجبور کیا: دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے تحریک انصاف کے اقتدار کے ابھی دو برس بھی مکمل نہیں ہوئے کہ جس پاکستان نے عمران خان کے بقول قرضے لینے کے بجائے غریب ممالک کو قرضے دینے تھے اس پر 43ہزار ارب سے زائد قرض چڑھ چکا تھا جس میں تحریک انصاف کی حکومت اپنے دو برسوں میں 13ہزار کا ریکارڈ اضافہ کیا عمران خان نے دو کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کے ساتھ ایسے پاکستان کا وعدہ کیا تھاجہاں یورپ اور امریکہ سے لوگوں نے نوکریوں کرنے آنا تھا مگر دو برس میں ہوا یہ کہ 2کروڑ پاکستانی بے روزگار ہو گئے۔ عمران خان معاشی ترقی کا راز زرعی اور صنعتی انقلاب بتاتے تھے۔ نئے پاکستان میں ہوا یہ کہ پاکستان کی تمام بڑھی فصلوں گندم اور گنے میں 30فیصد تک ریکارڈ کمی ہوئی۔ عمران صنعتوں کی چمنیوں سے نکلنے والے دھوئیں کو قوم کے لیے آکسیجن قرار دیتے تھے مگر نئے پاکستان میں ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اپریل 2019ء کی نسبت اپریل 2020ء میں آٹو موبائل سیکٹر کی پیداوار میں 96.49فیصد کمی ہوئی اپریل 2020ء میں سالانہ بنیادوں پر آئرن سٹیل سیکٹر کی پیداوار 89فیصد کر گئی ہے۔ حکومت کے اپنے ادارے شماریات کے مطابق اپریل میں الیکٹرانکس کی پیداوار میں 80.92فیصد چمڑے کی مصنوعات کی پیداوار میں 94.62فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جولائی تا اپریل آٹو موبیل سیکٹر کی پیداوار 41.90فیصد‘ کول اور پیٹرولیم سیکٹر کی پیداوار 21.15فیصد‘ کیمیکلز سیکٹر کی پیداوار 3.71فیصد اور الیکٹرانکس کی پیداوار میں 19.74فیصد کم رہی۔ وطن عزیز میں کوئی ایک شعبہ نہیں جس میں تبدیلی کے عمل میں ترقی نظر آئے۔ آئے روز ناکامیوں کے انکشافات ہوتے ہیں، اب تو مڈل کلاس کے لبوں پر خمار بارہ بنکوی کا یہ شعر ہے: بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم قسطوں میں خودکشی کا مزا ہم سے پوچھئے تحریک انصاف کے نئے پاکستان اور حکومتی رویے سے جون ایلیا کا کہاسچ محسوس ہوتا ہے کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے روز ایک چیز ٹوٹ جاتی ہے۔ قوم روز تبدیل ہوتے بحرانوں کی صورت میں دیکھ رہی ہے۔ دنیا میں گندم پیدا کرنے والے چھٹے بڑے ملک پاکستان کو آٹے کی مصنوعی بحران کی’’ تبدیلی ‘‘دیکھنا پڑی، تو 65روپے بکنے والی چینی نے95روپے میں فروخت ہو کر پاکستانیوں کا منہ کڑوا کیا۔رہی سہی کسر کورونا کے عفریت نے نکال دی۔ وزیر اعظم ہر بحرانی انکشاف پر کابینہ کا اجلاس بلاتے ہیں اور ہر اجلاس کے بعد مافیاز کے خلاف اقدامات کرنے کے بجائے اپنی کابینہ کے ساتھ میڈیا پر دلاسوں اور مجرموں کی لوٹ مار کے قصے سنا جاتے ہیں۔ پاکستان کی مڈل کلاس کے دلوں پر راج کرنے اور عالمی رہنمائوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جانے والے عمران خان کی اپنی حکومت پر گرفت کا یہ عالم ہے کہ چراغ کے نیچے روشنی نہیں۔ حکومت ہے‘ مگر رٹ نہیں‘ ہاں حکومتی وزیروں مشیروں اور خود عمران خان نے چوروں لٹیروں اور ڈاکوئوں کو نہ چھوڑنے اور انہیں نا ڈیل یا ڈھیل دینے کی رٹ ضرور لگا رکھی ہے۔ حکومتی اداروں اور تحریک انصاف کے عالی دماغوں کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ کورونا کی انسداد اور کورونا کی ادویات کو بلیک مافیا کی من مانیوں سے بچانے کا کام صرف ٹی وی سکرینوں کی حد تک ہو رہا ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ کورونا کے مریض بڑھے تو مافیا نے آکسیجن سلنڈر اور آکسی میٹر کی قیمتیں 5گنا تک بڑھا دی گئیں۔ ٹرمپ نے ہائیڈروکسی کلورو کوئن سے کورونا کے علاج کا نام لیا تو کلورو کوئن مارکیٹ سے غائب کر دی گئی۔ ظفر مرزا کے لبوں پرڈیکسا میسھاسون کا نام آنے کی دیر تھی،35روپے میں ملنے والا یہ انجکشن 500سے ہزار روپے میں ملنے کی خبریں آ رہی ہیں ایکٹمرا انجکشن سے زندگی صرف ان کو مل سکتی ہے جن کے پاس 5لاکھ روپے ہوں۔ نئے پاکستان میں سرمایہ داروں نے زندگی فروخت کرنے کا نیا دھندا ڈھونڈ نکالا ہے۔ حکومتی رٹ کا یہ عالم ہے کہ حکومت صرف ٹی وی پر ہے اور عمران خان عوام کو خود بچنے کا کہہ کر وزیر اعظم ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں ۔عالمی ادارہ صحت اور پاکستان کے طبی ماہرین سر پیٹ رہے ہیں کورونا کی صورت میں موت ہماری گلیوںبازاروں میں پہنچ چکی مگر ہمارے وزیر اعظم کی ایک ہی ضد، ووہان کی طرح سخت لاک ڈائون لگایا تو لوگ بھوک سے مر جائیں گے!مگر سوال یہ ہے کہ کورونا کے بعد کاروبار تین ماہ کے لئے بند رہے کتنے لوگ بھوک سے مرے؟ حکومت بتانے سے قاصر ، ہاں ہر روز کورونا کے کتنے مریض سامنے آنے اور کتنی اموات ہوئیں میڈیا کی شہ سرخیاں ضرور بن رہی ہیں ۔کورونا کی صورت میں موت پاکستانیوں کے سروں پر منڈلا رہی ہے مگر عمران خان بھی اپنی ہٹ کے پکے ہیں۔ مایوسی گناہ ہے افراد ہوں یا اقوام امید زندگی کی علامت ہوا کرتی ہے مگر زمینی حقائق سے چشم پوشی بھی خودکشی ہے۔ یہی حالات رہے تو وامق جونپوری کا کہا سچ ہونے والا ہے: سرکشی خودکشی پہ ختم ہوئی ایک رسی تھی جل گئی شاید