آج کے نوجوان نوے کی دہائی میں بچپن کے مرحلے میں تھے۔ اس لئے انہیں اندازہ ہی نہیں کہ سیاسی طور پر وہ دہائی بغض اور نفرت کا کیسا نمونہ تھی۔ 80 کی دہائی تو اس سے بھی گئی گزری تھی کہ ملک ایک ایسے مارشل لاء سے گزر رہا تھا جو سرعام کوڑوں اور پھانسیوں والا مارشل لاء تھا۔ اس سے پیچھے چلے جائیں تو ستر کی وہ دہائی آجاتی ہے جو پاکستان کی تاریخ کی سب سے بدترین دہائی ہے۔ اس دہائی کو میں نے بچپن کی آنکھ سے دیکھا لیکن وہ بچپن کی یادیں بھی ایسی خوفناک ہیں کہ بیان سے باہر۔ یہ پاکستان کے دو لخت ہونے اور اس کے بعد باقی ماندہ پاکستان کے بدترین سیاسی انتشار اور بھٹو کی پھانسی کی دہائی تھی۔ اس سے بھی پیچھے چلے جائیں تو اس ایوب خان کا دس سالہ مارشل لاء آتا ہے جس نے اس وقت تک پاکستان کی جان نہ چھوڑی جب تک اس کے اپنے بچوں نے ایوانِ صدر کے سبزہ زار پر کھیلتے ہوئے متنازعہ نعرے نہ لگا دیئے۔ اس سے پیچھے اس سکندر مرزا کا دور ہے جو پردیس میں ایک ہوٹل کے منیجر کی حیثیت سے جہاں فانی سے رخصت ہوا اور تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہوا۔ اس سے پیچھے سیاستدانوں کے "مقدس مقام" کی حدود شروع ہوتی ہیں۔ اس مقدس مقام کی جانب بڑھنے سے قبل آیئے ایک بار پھر 90 کی اس دہائی میں چلتے ہیں جب آج کا نوجوان بچپن سے گزر رہا تھا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ 88ء سے 2004ء تک پاکستان کی سیاست کا یہ حال تھا کہ میاں نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہ تھے ؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ محترمہ نے محض سیاسی انتقام کے تحت اتفاق فاؤنڈری کے لئے سکریپ لانے والے بحری جہاز "جوناتھن" کو 2 سال تک کراچی کی پورٹ سے نہیں لگنے دیا تھا اور یہ کھلے سمندر میں کھڑا رہا تھا ؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ وزیر اعظم پاکستان محترمہ بینظیر بھٹو محض اس وجہ سے پنجاب کے دورے پر جانے سے کتراتی تھیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف پروٹوکول کے مطابق ان کے استقبال کو ایئرپورٹ آنے پر آمادہ نہ ہوتے تھے ؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ شیخ رشید تہذیبِ مشرق کی دھجیاںں اڑاتے ہوئے قومی اسمبلی میں محترمہ بینظیر بھٹو کو "یلوکیب" کہہ کر مخاطب کرتے تھے ؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ صدر غلام اسحاق خان پارلیمنٹ سے خطاب کر رہے ہوتے اور محترمہ گو بابا گو کے نعرے لگوا رہی ہوتی تھیں ؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ اسی پارلیمنٹ میں صدر فاروق لغاری کے روسٹرم پر تہمینہ دولتانہ نے چوڑیاں پھینک دی تھیں کہ اگر تم اسمبلی نہیں توڑ سکتے تو یہ چوڑیاں پہن لو ؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ جو محترمہ بینظیر بھٹو کو "سیکیورٹی رسک" قرار دیتے تھے وہی درِپردہ ان سے شمالی کوریا سے ایٹمی میزائیلوں کی ٹیکنالوجی منگوا رہے تھے اور یہ آپ کے شاہین و غوری محترمہ ہی کی دین ہیں ؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ سعودی مسلم لیگ اور عراقی پی پی پی کے لئے سرِ عام سرمایہ کاری کرتے تھے ؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر اسمبلی میں "ہارس ٹریڈنگ" چلتی اور یہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سیاسی اصطلاح ہوتی تھی ؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ فلور کراسنگ جیسا مذاق آئے روز کا معمول تھا اور پارلیمنٹ میں بیٹھے بیٹھے لوگ پارٹی بدل لیا کرتے تھے ؟ ان سوالات پر غور بعد میں کیجئے گا، آیئے لوٹ کر اس مقام کی جانب جاتے ہیں جہاں ہمارے ضائع ہونے والے ستر سالوں کی وجہ دفن ہے۔ سب سے اہم وجہ ان سیاستدانوں کا دور ہے جنہیں یہ تکبر لے ڈوبا کہ وہ پاکستان کے خالق ہیں۔ ان خالقوں نے اس ملک کو اس کا پہلا آئین دینے میں سات سال لگا دیئے۔ جی ہاں ! سات سال ! اور یہیں سے پاکستان کی خراب حالت کا آغاز ہوگیا۔ آپ 73ء کے آئین کی تخلیقی مدت اور سنجیدگی کا اس پہلی آئین ساز اسمبلی کی کار کردگی سے تقابل کرلیں تو دو منٹ میں سمجھ جائیں گے پاکستان کے مسائل کا اگر کوئی حقیقی ذمہ دار ہے تو وہی لوگ ہیں جو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں بیٹھے سرکاری روٹیاں توڑ رہے تھے۔ کوئی کہتا ہے ایوب خان نے پاکستان کی بربادی کی بنیاد رکھی تو کوئی کہتا ہے نہیں صاحب ! سکندر مرزا اس کا ذمہ دار تھا۔ اور ان دو مقامات سے پیچھے دیکھنے کی کوئی ہمت نہیں کرتا کیونکہ وہاں تو وہ بیٹھے ہیں جنہیں پاکستان کے "خالق" ہونے کا اعزار حاصل ہے ۔ بھول گئے کیا کہ وہ یہی نمونے تھے جنہیں قائد اعظم علیہ الرحمہ نے "کھوٹے سکے" قرار دیا تھا ؟ اسمبلی کی مدت کے لئے انہوں نے لکھوا لیا تھا کہ جب تک آئین تیار نہ ہو جائے یہ اسمبلی برقرار رہے گی اور پھر سات سال تک آئین سازی کا مذاق اڑاتے رہے۔ ان کی اس بدنیتی کے نتیجے میں نو مولود پاکستان بدنیتی سے ایسا متعارف ہوا کہ آگے جو بھی آیا بدنیت ہی آیا۔ جب بڑے غیر سنجیدہ ہوں تو بچے بھی اسی ڈگر پر چل پڑتے ہیں۔ ان نام نہاد بڑوں سے سیاستدانوں کی سیکنڈ جنریشن نے غیر سنجیدگی، بد نیتی اور خود غرضی ہی سیکھی جس کے نتیجے میں بد نیتی و خود غرضی کی ایک ایسی روایت چل پڑی جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔