کسی مغربی مصنف نے صحافت اور ادب کا فرق یہ بتایا تھا کہ ادب کو کوئی پڑھتا نہیں اور صحافت میں پڑھنے کے لئے کچھ ہوتا نہیں۔ ہمیں اس نقطۂ نظر سے چنداں اتفاق نہیں۔ ہاں اگر یہ کہا جاتا کہ اخبار میں چند مستثنیات کے سوا (مثلاً ہمارا کالم) پڑھنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا تو ہم مان جاتے کہ بات دل کو لگتی ہے اوپر جو نقل کیا گیا قول ۔ یہ اس زمانے کا ہے جب ہمارے وزیر اعظم عمران خان اس عہدہ جلیلہ پر فائز نہ ہوئے تھے اور نہ اتنی دانش مندانہ تقریروں کا وقت آیا تھا جیسی کہ وہ گزشتہ بیس پچیس برسوں سے کرتے آ رہے ہیں کوئی ہم سے پوچھے کہ اخبار میں ہمیں کیا نظر آتا ہے یعنی ہم کیوں پڑھتے ہیں اخبار ،تو بلا تامل ہمارا جواب ہو گا وزیر اعظم کے بیانات کے لئے، کسی نے ہم سے کہا کہ ہمارے وزیر اعظم کی مثال اس طالب علم جیسی ہے جو تھیوری میں تو بہت اچھے نمبر لاتا ہے لیکن پریکٹیکل میں فیل ہو جاتا ہے۔ اب کوئی پوچھے فرق تھیوری اور پریکٹیکل میں کیا ہے؟تو ہمیں کہیں گے تھیوری‘ تھیوری ہوتی ہے اور پریکٹیکل پریکٹیکل۔ جیسے ڈگری‘ ڈگری ہوتی ہے چاہے جعلی ہو یا اصلی۔ مگر ایک فرق اور بھی ہے۔ تھیوری کا تعلق کتاب سے اور پریکٹیکل کا آلات سے‘ کتاب لائبریری میں ہوتی ہے اور پریکٹیکل لیبارٹری میں ۔ کتاب ‘ اگر واقعی کتاب ہو تو مقدس اور پریکٹیکل میں بہت سے کھیکھڑ پالنے پڑتے ہیں۔ تھیوری میں کوئی کمزور ہو کوئی غلطی کر بیٹھے تو معافی تلافی سے کام چل جاتا ہے۔پریکٹیکل کی غلطی قابل معافی نہیں ہوتی۔ اس میں آپ یوٹرن نہیں لے سکتے۔ کیوں کہ تجربہ غلط ہو جائے تونتیجہ بھی غلط ہی نکلتا ہے۔ وزیر اعظم جو تقریریں کرتے ہیں‘ پریس کانفرنسوں اور اجتماعات میں جو نظریہ سازی کرتے ہیں وہ ہمیشہ متاثر کن ہوتا ہے۔ یقین آ جاتا ہے کہ ہاں آکسفورڈ کے لکھے پڑھے ہیں۔ لیکن معاملات وہاں بگڑتے ہیں جب وہ اپنی تھیوری کا اطلاق اپنی حکومت پر کرتے ہیںاور نتائج منفی آئیں تو یوٹرن میں دیر نہیں لگاتے۔ تنقید ہوتی ہے تو اس کا جواب بھی تھیوری ہی سے دیتے ہیں کہ بھائی دنیا کے ہر بڑے سیاست ہر بڑے حکمران نے یو ٹرن لیا ہے۔ سیاست میں یوٹرن لینا نہ بری بات ہے اور نہ انوکھی۔ آج ہی کے اخبار کی شہ سرخی ہے جس میں وزیر اعظم نے فرمایا’’آٹا کی قیمتیں نہیں بڑھنی چاہئیں‘‘ بیان سے پتا چلتا ہے کہ وزیر اعظم تھیوری میں آٹا کے مہنگے کئے جانے سے متفق نہیں۔ لیکن پریکٹیکل میں آٹا مہنگا ہوا اور کسی نے وزیر اعظم سے اس کی شکایت کی تو تھیوری میں جواب ہو گا کہ یہ سارا کیا دھرا پچھلی بدعنوان حکومتوں کا ہے۔ عوام صبر کریں ‘ جھیل جائیں دو ایک برسوں میں اللہ نے چاہا تو آٹا سستا ہو جائے گا ۔ تو صاحبو! یہ سارا جھگڑا تھیوری اور پریکٹیکل کا ہے۔ ہم نے جو وزیر اعظم کی پارٹی کو جی جان سے ووٹ دیا اور سپورٹ کیا تو اسی تھیوری کی وجہ سے، ان کے ہر ٹی وی انٹرویو اور ہر جلسے جلوس میں تبدیلی بہ ذریعہ پالیسی ایسے ایسے دعوے سنے اور ایسے ایسے جواب دیکھے کہ مہاتیر محمد کی طرح ہمیں بھی یقین ہو گیا کہ پاکستان کو ایسا نجات دہندہ مل گیا۔ تھیوری میں تو وزیر اعظم واقعی نجات دہندہ سہی مگر تھیوری سے کیا ہوتا ہے۔ تھیوری پڑھنے والے طالب علم کو تو ڈھنگ کی نوکری بھی نہیں ملتی۔ تان آ کر ٹوٹتی ہے پریکٹیکل پر۔ وہ تعلیم میں یکساں نصاب‘ یکساں زبان کے دعوے‘ پولیس کی اصلاح احوال کے وعدے، جمہوریت کو حقیقت جمہوریت بنانے کے خواب۔ آئی ایم ایف کا طوق قوم کی گردن سے اتار پھینکنے کی گردان۔ یہ اور ایسی کئی تھیورٹیکل باتیں۔ مگر تئیس برسوں میں یہ نہ ہو سکا کہ کچھ لکھے پڑھے لوگوں کو اس کام پر لگا دیتے کہ میاں! چلو ایک بلیو پرنٹ تیار کر دو کہ اگر ہماری حکومت بن گئی تو یہ سارے تھیورٹیکل وعدے ہم کیسے پورے کریں گے۔ کچھ دانشور معیشت پر کچھ تعلیم پر‘ کچھ معاشرے کی اصلاح و تربیت پر اور اسی طرح ہر اس مسئلے اور بحران کو دور کرنے کے عملی اور ٹھوس منصوبوں کی تیاری پر لگ جائیں تاکہ حکومت مل جائے تو یوٹرن نہ لینا پڑ جائے۔ اب اگر یہ بات وزیر اعظم کے کانوں میں پڑ جائے تو عجب نہیں کہ کہہ اٹھیں گے کہ بابائے قوم نے کون سا بلیو پرنٹ تیار کیا تھا۔ انہوں نے تو دستور سازی تک کا معاملہ قوم اور منتخب پر چھوڑ دیا تھا۔اصل میں تھیوری بھی ایک ٹیڑھی کھیر ہے۔ تھیوری میں عقل اور منطق ہے ہر اعتراض کا جواب دیا جا سکتا ہے لیکن جواب کتنا ہی مدلل ہو اس سے حقیقت تو نہیں بدل سکتی۔ مطلب یہ کہ جو پریکٹیکل میں فیل اسے فیل ہی سمجھا جائے گا۔ کسی نے وزیر اعظم موصوف کی اقوام متحدہ میں شاندار تقریر پر خوب تبصرہ کیا۔ کہا کہ عمران خان بہت اچھے وزیر خارجہ ہیں‘ ہمیں تلاش کسی اچھے وزیر اعظم کی کرنی چاہیے بات اسلئے دل کو لگی کہ بے چارے وزیر خارجہ کا سارا کام زبانی کلامی یعنی تھیوری کا ہوتا ہے۔ اسے ڈپلومیسی کا فن کہا جاتا ہے مگر ہمارے وزیر اعظم کو ڈپلومیسی کہاں آتی ہے۔؟ امریکہ میں انہوں نے ہر سوال کا جواب جس بے دھڑک طریقے سے دیا کہ ہمیں بے اختیار ترجمان حقیقت کا مصرعہ یاد آ گیا کہ ع ۔ہزارخوف ہوں دل میں زباں ہو دل کی رفیق یا وہ مصرعہ کہ میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند۔ امریکی بھی کیا سوچتے ہوں گے کہ یہ کیسا وزیر اعظم ہے جو ہماری سرزمین پر کھڑا ہو کے ہماری ہی پالیسی میں کیڑے نکال رہا ہے۔ دشت گردی کی جس جنگ میں حصہ لینے پر امریکہ نے امداد دینے کیلئے خزانے کا منہ کھولے رکھا اسی جنگ میں حصہ لینے کو یہ شخص اپنی قومی غلطی بتلا رہا ہے۔ تو یہ جو کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم کو سیاست نہیں آتی تو حرف بہ حرف سچ ہے۔ سیاست شطرنج کے کھیل کا دوسرا نام ہے۔ شطرنج کا وہ کھلاڑی کبھی مات نہیں کھاتا جسے مہروں کی ذھانت سے آگے پیچھے کی چال چلنے کا فن آتا ہو۔ شطرنج کرکٹ کا کھیل نہیں جس میں سارا کمال گیند پھینکنے اور کیچ کرنے پر ہی تمام ہوتا ہے۔ شطرنج میں کامیابی کے لئے کبھی مہروں کو مروانا بھی پڑ جاتا ہے۔ ماہر کھلاڑی جانتا ہے کہ پیادہ وزیر کی چال نہیں چل سکتا(یہاں وزیر اعلیٰ پنجاب بزدار کی طرف کوئی اشارہ نہیں) لہٰذا پیادہ کو پیادہ ہی رہنے دیا جائے اور اس سے وہی کام لیا جائے جس کی اس میں استطاعت ہے۔ایک استاد اور ایک کالم نگار ہونے کی حیثیت میں ہمیں اپنے وزیر اعظم سے محبت بھی ہے اور ہمدردی بھی۔ کیوں کہ ہمارا استادی اور کالم نگاری کا پیشہ دونوں ہی تھیوری سے تعلق رکھتے ہیں۔ہم تھیوری پڑھا کر جس طالب علم کو میڈیا میں بھیجتے ہیں وہ واپس آ کر یہی گلہ کرتا ہے کہ سر چینل والے یا اخبار والے کہہ رہے تھے کہ میاں ! تم اپنے ڈیپارٹمنٹ سے تھیوری کا سبق پڑھ کر آئے ہو۔ یہاں تو سارا کام پریکٹیکل کا ہے۔ نوکری دیں تو کس برتے دیں۔ تو یہ جو جھگڑا ہے تھیوری اور پریکٹیکل کا وہ زندگی کے ہر شعبے میں ہے فی زمانہ تھیوری کی نہیں ‘پریکٹیکل ہی کی اہمیت ہے۔ دونوں پاسنگ ہیڈ ہیں۔ جو ایک میں فیل وہ فیل ہی تصور کیا جائے گا۔ اب دیکھنا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم پریکٹیکل میں پاس ہونے کے لئے کتنا اور کیسا زور لگاتے ہیں!