اللہ رب العزت نے مخلوق کی رہنمائی و ہدایت کے لیے انبیا ئے کرام علیہم السلام کائنات عالم میں بھیجے ۔ تمام مرسلین کے آخر میں حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبین بنا کر بھیجا اور اس کے ساتھ ہی سلسلہ نبوت تکمیل کو پہنچا مگر سلسلۂ تبلیغ قیامت تک جاری رہے گا۔اس کے لیے پرور دگار عالم نے علما ئے حق کو نیابت رسول کا عظیم منصب عطا فرمایا جس کی بنا ء پر حضرات علما ئے کرام قیامت تک تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عام کرتے رہیں گے ۔ وراثت مصطفوی کے حاملین علما ئے کرام کی جماعت ہیں ان میں سے ایک بڑا نام علامہ ضیا ء الدین مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جنہیں دنیا قطب ِمدینہ کے نام سے جانتی ہے ۔ آپ 1294ھ بمطابق 1877عیسوی کو پاکستان کے ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔آپ کا سلسلۂ نسب کئی واسطوں سے جانشینِ پیمبر، خلیفہ اول سرکار سید نا صدیق اکبررضی اللہ عنہ سے ملتا ہے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبہ کلاس والا اور سیالکوٹ میں حاصل کی ،مرکز الاو لیاء لاہور شریف اور وہاں سے دہلی (ہند) اور پھر پیلی بھیت (ہند) میں دنیا ئے حدیث کے عظیم امام مولانا وصی احمد محدث سورتی رحمۃاللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ وہاں چار سالہ قیام کے دوران مروجہ علوم عقلیہ و نقلیہ میں مہارت تامہ حاصل کی اور دورہ حدیث شریف کی تکمیل کی اور مجدد برحق امام احمد رضا خاں محدث و فقیہ بریلی رحمۃ اللہ علیہ کے دست کرامت سے دستار فضیلت حاصل کی آپ نے اما م اہلسنّت کی بیعت کی اور اٹھارہ سال کی عمر میں اعلیٰ حضرت سے سند خلافت پائی۔ پھرمزید کچھ عرصہ اپنے مرشد کریم کی بارگا ہ میں رہ کر سلو ک کی منازل طے کیں اور تقریبا چوبیس سال کی عمر میں کراچی تشریف لائے ۔ کچھ عرصہ پاکستان میں گزارنے کے بعدبارگاہ غوثیت سے فیض یاب ہونے کے لئے بغداد شریف کا قصد کیا ۔حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے دربار فیض رساں کے انوار تجلیات کے سبب تقریباً چار سال کا عرصہ جذب و استغراق میں گزارا۔پھر وہاں سے شہرمحبوب مدینہ طیبہ کی جانب براستہ شام عازم سفر ہوئے اور راستے میں اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام اور اولیا ء کرام کے مزارات پر حاضری دیتے ہوئے اس شہر محبوب میں پہنچے جس کی حاضری کے لئے ملائکہ منتظر رہتے ہیں۔مدینہ طیبہ کی حاضری ہر محب اور عاشق کی اولین آرزو ہوتی ہے مگر وہ عشاق بڑے ہی خوش نصیب ہوتے ہیں جن کو آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے شہر میں سکونت کی اجازت عنایت فرمائیں ۔حضور قطب مدینہ بھی انہی عشاق میں سے ہیں ۔ ایک بار مدینہ طیبہ پہنچ گئے پھر کہیں اور جانے کا شوق نہ رہا،خود فرماتے ہیں : مدینہ طیبہ میں آمد کے ابتدائی دن آزمائش کے تھے ، میرے پاس موجود توشہ ختم ہوچکا تھا اور نیت یہ تھی کہ کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوگیا ہوں تو کسی اور کے سامنے دست ِسوال دراز کیوں کروں ۔ اسی وجہ سے سات دن پانی سے روزہ رکھتا اور پانی سے افطار کرتا ساتویں دن جب نقاہت سے نڈھال ہوگیا تو ایک بزرگ تشریف لائے جن کی ہیبت و جلال کے سبب انکے چہرے پر نگاہ نہ ٹھہر سکتی تھی انہوں نے مجھے تین مشکیزے عطا فرئے ۔ایک میں شہد دوسرے میں آٹا تیسرے میں گھی تھا تھوڑی دیر بعد کچھ اور اشیا ء عنایت فرمائیں اور واپس تشریف لے گئے ۔ تفصیلات معلوم کرنے کے لئے پیچھے لپکا مگر وہ میری نظروں سے غائب ہوگئے ۔آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کے خیال میں کون تھے ؟انہوں نے فرمایا، میرے گمان میں وہ مدینہ طیبہ کے سلطان کے چچا جان والئی مدینہ سید الشہداء سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ تھے جومیری دستگیری فرمانے تشریف لائے تھے کیونکہ مدینہ شریف کی ولایت آپ کے سپرد ہے ، حضور قطب مدینہ کوسید نا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بے انتہا عقیدت تھی ۔اس عقیدت کی وجہ سے ہر سال 17رمضان المبارک کو آپ کا عرس نہایت عقیدت واحترام سے منا تے اور روزہ آپ کے مزار پر انوار پر افطار فرماتے ۔ آپ پیکر علم و عمل ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی خلیق تھے ۔آپ کو تاجدار مدینہ کی ذات گرامی سے جنون کی حد تک عشق تھا۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آپ فنا ء فی الرسول کے منصب جلیلہ پر فائز تھے ۔ ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی آپ کا روز شب کا مشغلہ تھا۔ سارا سال ہی گھر پر محفل میلاد شریف کا انعقاد کرتے ۔آپ کی قربت میں انس و محبت کے دریا بہتے تھے ۔آپ کی خدمت میں حاضر ہونے والے بتاتے ہیں کہ آپ کی زیارت سے سلف صالحین کی یاد تازہ ہوجاتی ۔حاضرین کونصیحت فرماتے تو مختصر انداز میں کہتے طمع نہیں منع نہیں جمع نہیں ،یعنی لالچ مت کرواگر بن مانگے مل جائے تو جمع نہ کرو بلکہ راہ خدا میں خرچ کردو آ پ کی خدمت میں کوئی خوشبو پیش کرتا تو آپ دعا دیتے ہوئے فرماتے عطراللّٰہ ایا مکم اللہ تمہارے ایام خوشبودار کرے ۔وصال سے دو ماہ قبل ایک خاص کیفیت میں چلے گئے ۔بعض اوقات کچھ گفتگو کرتے جو سننے والوں کو سمجھ نہ آتی۔ بعض اوقات باربار فرماتے قبلہ من تشریف لائیے ایک بار حاضرین نے دیکھا کہ کسی سے ہاتھ جوڑ کر التجا کر رہے ہیں مجھے معاف فرمادیجئے ۔کمزوری کے باعث تعظیم کے لئے کھڑا نہیں ہوسکتا کچھ دیر کے بعد حاضرین کے استفسار پر فرمایا ،ابھی ابھی حضرت سیدناخضر علی نبیناعلیہ الصلوۃ والسلام ،حضورسرکارِ بغدادسیدناغوث اعظم اور میرے پیر مرشدامام احمد رضا علیہما الرحمۃ والر ضوان تشریف لائے تھے ۔۴ ذوالحج شریف 1401ھ بمطابق 1981ء بروز جمعہ مسجد نبوی کے مؤذن نے اُدھر اللہ اللہ اکبر کہا تو اِدھر آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا، کلمہ شریف پڑھا اور روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی ۔نمازِ جنازہ سرکار کے قدموں میں ادا کی گئی اور جنت البقیع میں اہلِ بیت ِاطہارعلیہم السلام کے مزارات کے قریب جگہ نصیب ہوئی۔ خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را