گزشتہ دہائی میںمشرق وسطی میں قطر ایک منفرد ملک کے طور پر ابھرا ۔ چھوٹے سے اس جزیزے کی شناخت اب دنیا میں امن ، استحکام، تعلیم کے فروغ ، بحث ومباحثے اور ثالثی کے ذریعے تنازعات کے حل میں مددگار ریاست کی ہے۔ تنازعات میں الجھنے کے بجائے جو تنازعات کے حل کے لیے مالی معاونت اور انسانی وسائل کا بے دریغ استعمال کرتاہے۔ دنیا کی معروف یونیورسٹیوں اور دانش گاہوںکے علاقائی کمپیس دارالحکومت دوحہ میں قائم ہیں ۔جہاں مکالمے ، تحقیق ،مشترکہ انسانی مفاد اور اقدار کو فروغ دینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ گزشتہ ہفتے میںقطر کے سفیر جناب شیخ سعود بن عبدالرحمان التھانی کے ساتھ اسلام آباد میںمیں ایک دلچسپ نشست ہوئی۔دبلے پتلے درمیانی عمر کے سفیر کے ساتھ ملاقات محض معلومات تک رسائی اور تجزیہ میں گہرائی پیدا کرنے کی ایک کوشش نہ تھی بلکہ یہ سمجھنے کی ایک شعوری کاوش بھی تھی کہ آخر قطر نے دیگر عرب ممالک سے ایک مختلف راہ کا انتخاب کیوں کیا؟ وہ کیا محرکات تھے جن کی بنیاد پر قطر نے مغرب اور عرب دنیا کے مابین غیر جانبدار ثالث اور پل کا کردار ادا کرنے کا انوکھا فیصلہ کیا؟افغانستان میں طالبان اور امریکیوں کے مابین مذاکرات کی بساط بچھانے اور آخر کار سیاسی سمجھوتہ کراکر قطر نے دنیا بھر سے داد وتحسین حاصل کی۔افغانستان میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کے بعد قطر کی عالمی حیثیت اور مرتبے میں غیر معمولی اضافہ ہوا ۔ قطر کی ان غیر معمولی کامیابیوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس ملک کے نظام اور سیاسی فکر کا پہلے ادارک کیا جائے۔اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں جناب سعود التھانی نے بتایا کہ ثالثی اور تنازعات کے حل میں قطر کی دلچسپی اور کردارمحض کسی وقتی ضرورت یا سیاسی مصلحت کے تابع نہیں بلکہ ریاستی پالیسی کا حصہ اور آئینی ذمہ داری ہے۔قطر کی حکومت اور عوام مذاکرات اور ثالثی کے ذریعے تنازعات کے حل کو اپنااخلاقی، ثقافتی اور مذہبی فریضہ تصورکرتے ہیں۔غالباً قطر دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے اپنے آئین میں ملک کی خارجہ پالیسی کا تعین کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں لکھا کہ قطر کی خارجہ پالیسی بین الاقوامی تنازعات کے پرامن حل کی حوصلہ افزائی کے ذریعہ بین الاقوامی امن و سلامتی کو مستحکم کرنے کے اصول پر مبنی ہے۔ سعود التھانی نے بتایا کہ قرآن مجید تنازعات کے حل کے لیے ثالثی اور مفاہمت جیسے ٹولز کے استعمال کی ترغیب دیتاہے۔اسی جذبے کے تحت قطر نے حالیہ برسوں میں یمن، اریٹیریا، سوڈان اور لبنان جیسے تنازعات میں ثالثی کا کردار ادا کیا۔ قطر نے ثالثی کو بطور ایک ادارے کے ترقی دی ۔ رفتہ رفتہ اب قطرکے پاس ایسے قابل اعتماد ماہرین کی ایک معقول تعداد دستیاب ہوگئی ہے جو سرکاری، غیر سرکاری اور سول سوسائٹی کی مدد سے دنیا بھر میں قابل اعتماد ثالث کا کردار ادا کرنے کے قابل ہیں۔چناںنچہ دنیا قطر کو سویڈن اور ناروے کے پائے کا قابل اعتماد ثالث تسلیم کرتی ہے۔ قطر کی غیر سرکاری تنظیموںنے بھی دنیا بھر میں سماجی خدمات سرانجام دے کر نمایاں شناخت حاصل کی۔ تنازعات اور خانہ جنگی کے شکار ممالک بلخصوص غزہ میں مقید فلسطینیوں کی مدد کی اطلاعات اکثر میڈیا کی زینت بنتی ہیں لیکن پاکستان جیسے دوست ملک میں قطر نے سماجی اور تعلیمی کے شعبے میں خاموشی کے ساتھ گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔سعود التھانی نے بتایا کہ قطر پاکستان میں غریب اور وسائل سے محروم طبقات کے بچوں کے لیے یونیسکو،برٹش کونسل، یو این ایچ سی آر، سٹیزن فاؤنڈیشن اور ایلائٹ فاؤنڈیشن جیسے معتبر اداروں کی شراکت سے سولہ لاکھ بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے ''ایجوکیٹ اے چائلڈ'' کا پروگرام چلا رہاہے ۔ اس پروگرام کی بدولت لاکھوں بچے بنیادی تعلیم سے مستفید ہوئے۔علاوہ ازیںزلزلہ ہو یا سیلاب قطر چیریٹی دیگر عالمی اداروں کے ہمراہ مشکل کی اس گھڑی میں متاثرین کی مدد کے لیے صف اوّل میں نظر آتی ہے۔ سعود التھانی کہتے ہیں کہ وہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ انہیں اس ملک میں کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔ لوگ انہیں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کی راہ میں پلکیں بچھاتے ہیں۔ حیرت اور استعجاب کے ساتھ سفیر محترم نے کہا کہ ایک نہیں کئی مرتبہ ان سے ہوٹلوں میں کھانے کا بل نہیں لیاگیا۔ محبت اوراخوت کے اس لازوال رشتے کی کوئی مثال اور کئی نہیں ملتی ۔ عزت ماب سفیر نے بتایا کہ قطر کی حکومت اور لوگ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہر ممکن تعاون کررہے ہیں۔ مضبوط اور ترقی یافتہ پاکستان پورے خطے کے مفاد میں ہے۔ انہوں نے فخر سے بتایا کہ پچاس ہزار کے لگ بھگ پاکستانی شہری قطر میں مختلف شعبہ جات میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔ وہ محض لیبر مارکیٹ کا حصہ نہیں بلکہ تعلیم، صحت، کاروبار اور کھیلوں کے میدان میں بھی ممتاز حیثیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے قطر میں کئی شعبوں کی بنیاد رکھی اور انہیں کامیاب بنانے بھی کردار ادا کیا۔انہوں نے آگاہ کیا کہ گزشتہ چند برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں بھی زبردست اضافہ ہواہے۔ خاص کر قطر اب پاکستان میں بہت سارے شعبوں میں براہ راست سرمایہ کاری کررہاہے۔ وقت کے ساتھ اس سرمایہ کاری میں اضافہ بھی ہوگا۔ الجزیرہ ٹی وی چینل کی دھوم پوری دنیا میں مچی ہوئی ہے ۔ اس کی رپورٹنگ ،تجزیوں اورتحقیقی دستاویزی فلموں نے میڈیا کی صنعت میں جاری مسابقت میں زبردست اضافہ کیا ۔مسلم دنیا کے مسائل کو اجاگر کرنے میں خاص طور پر الجزیزہ انگریزی کا بڑا حصہ ہے۔ میں نے استفسار کیا کہ قطر کی حکومت نے الجزیرہ جیسے ادارے کو کیوں کر آزادی سے کام کرنے دیا جوکہ اب عرب اور مسلم دنیا کی ایک شناخت بن چکا ہے؟انہوں نے بتایا کہ قطر کی حکومت الجزیزہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی بلکہ اس کی انتظامیہ آزادی کے ساتھ خدمات سرانجام دیتی ہے۔ قطر میں اب درجنوں مقامی اور عرب ممالک کے ٹی وی چینلز دیکھاجاتے ہیں۔ ناظرین کے پاس انتخاب کے موقع ہے۔ ان کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔قطر کی حکومت لوگوں پر اپنی رائے مسلط نہیں کرتی۔ وزیراعظم عمران خان کی لیڈرشپ میں پاکستان بھی اب بتدریج ایک ایسا ملک بننے کی راہ پرگامزن ہے جو خطے میں امن، استحکام، مکالمے اور اقتصادی ترقی کو ترجیح دیتاہے ۔اپنی سرزمین پر کسی دوسرے کی جنگ لڑے گا اور نہ جنگوں کا حصہ بننے کے پختہ عزم کا بارہا اظہار کرچکاہے۔اس حوالے سے دونوں مشترکہ طورپر ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھ سکتے ہیں۔ خاص طور پر افغانستان میں دونوں ممالک نے مل کر کام کرنے کا جو تجربہ حاصل ہوا اس کی بنیاد وہ پورے خطے کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے کا کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں۔ قطری سفیر کے ساتھ نشست اور ان کے تجربات سے استفادہ ایک خوشگوار تجربہ تھا کیونکہ مسلم دنیا میں اس طرح کی سیاسی فکر کے حامل حکمرانوں اورسفارت کاروں کا قحط ہے ۔