مشتاق احمد یوسفی، اُردو مزاح اور نثر کا سب سے بڑا نام… ایسے ادیب کسی بھی زبان کو خوش قسمتی اور انعام کے طور پر نصیب ہوتے ہیں کہ جو زبان کی وجہ سے نہیں بلکہ زبان ان کی وجہ سے زندہ رہتی ہے۔ مزاح کی طرح ان کی شخصیات کا معیار بھی ہمالہ کی طرح بلند ہے ۔ اپنی زندگی میں جن شخصیات سے وہ سب سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں، اُن میں قائدِ اعظم کا درجہ سب سے اونچا ہے۔ جسکا ثبوت انکی پانچویں اور آخری تصنیف ’’شامِ شعر یاراں‘‘ کے ابتدائی بتیس صفحات پہ محیط قائدِ اعظم کا خاکہ ہے، جو محبت، عقیدت، جذبے اور احترام سے چھلکا پڑتا ہے۔ یاد رہے کہ قائدِ اعظم اور اُردو زبان کی محبت میں یوسفی اور اُن کا پورا خاندان اعلیٰ عہدوں کو ترک کر کے پاکستان چلا آیا۔ قائد کا دیدار اُنھیں قیامِ آگرہ کے دوران اپنے لنگوٹیے دوست مسرور حسن خاں کے تجسس و ترغیب کے سبب میسر آیا، جہاں قائد ایک فوجداری مقدمے کے سلسلے میں تشریف لائے۔ آئیے آج اس عظیم قائد کو ایک عظیم ادیب کی نظر سے دیکھتے ہیں: ’’پیشی کے دن مسرور حسن خاں اور مَیں عدالت کے مقررہ وقت سے پندرہ منٹ پہلے پہنچ گئے۔ دیکھا کہ قائدِ اعظم ہم سے بھی پہلے آ چکے ہیں اور عدالت کے باہر آہستہ آہستہ محوِ خرام ہیں کہ دروازہ کھلے تو اندر جائیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ گہری سوچ میں گم ہیں۔ انھوں نے آنکھ اٹھا کر لوگوں کی طرف نہیں دیکھا اور نہ کوئی شخص انکے قریب گیا۔ انکے ہونٹوں میں ایک بے جلا سگریٹ دبا تھا۔ دو تین چکروں کے بعد ان کے سیکرٹری نے، جو غالباً سندھی ہندو تھا، آگے بڑھ کے ماچس سے سگریٹ سلگایا، لیکن مَیں نے قائد کو کش لیتے یا راکھ جھاڑتے نہیں دیکھا۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے، انھوں نے ہلکے کریم رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا۔ ’’آپ نے پتلون کی Razor sharp کریز دیکھی؟‘‘ مسرور حسن خاں نے پوچھا! ’’ارے صاحب! چہرہ دیکھنے سے فرصت ملے تو کچھ اور دیکھوں۔‘‘ ایک عجیب دبدبے اور رعب کا احساس ہوتا تھا ،جسے تمکنت، طنطنہ یا رعونت ہر گز نہیں کہا جا سکتا تھا۔ مَیں بِرلا ہاؤس جے پور میں پریزیڈنٹ راجندر پرشاد اور مردِ آہن ولبھ بھائی پٹیل سے بھی ملا ہوں اور بھولا بھائی ڈیسائی کو قریب سے دیکھا اور سنا ہے۔ لیاقت علی خاں سے دِلی میں ان کی کوٹھی پر ایک غرض مند کی حیثیت سے ملاقات ہوئی۔ انھیں ہمدرد و شفیق پایا۔ جن کے نامِ نامی سے آئی آئی چُندریگر روڈ منسوب ہے، انھوں نے بھی بارہا شرفِ ملاقات بخشا۔ سہروردی صاحب سے ایک مختصر لیکن دلچسپ و سبق آموز ملاقات ہوئی۔ نواب بہادر یار جنگ کی مسحور کن خطابت کا اعجاز بھی دیکھا۔ ان اکابرینِ عظّام کی بڑائی اور مکارم اپنی جگہ، لیکن قائدِ اعظم کے چہرے پر جو عزمِ صمیم، ناشکستنی اعتماد اور لہجے میں جو جلالی تیقن اور گھن گرج دیکھی، وہ اس حدِ کمال تک کہیں اور نظر نہ آئی۔ شخصیت کے جو اوصاف اور چہرے کا جو ایکسپریشن مَیں اپنے پڑھنے والوں کو دکھانا چاہتا ہوں، اس کے لیے الفاظ نہیں مل رہے۔ جی چاہتا ہے بس تصویر دکھا دوں۔ سنسکرت میں ان اوصاف کے لیے ایک کھردرا، کھڑکھڑاتا، دھدھکتا، بنکارتا، ڈکارتا لیکن جامع و ہمہ صفت موصوف لفظ ہے: درِڑھ اور درِڑھتا۔ جہاں تک اس کے لغوی معانی و مفاہیم کا تعلق ہے تو ذرا دیکھیے کہ John T. Platts نے اس کے معنی کیسے مزے لے لے کے ، پلٹ پلٹ اور جھوم جھوم کے بیان کیے ہیں۔ معنی کیا بیان کیے ہیں، دھنک اور شبد ساگر کے سارے رنگوں سے بھری پچکاری سے ہولی کھیلی ہے۔ اس لفظ کے صوتی ٹھناکے رَڑک سے بھی معنی کے تیور اور تیہا بول اٹھتے ہیں: strong, tough, coarse, powerful, firmly; strongly; ascetic; orthodox; firm-bodied, stalwart; a diamond; strong in battle; a hero; faithful, devoted; firm or resolute of mind, staunch minded; to remain or stand firm to maintain (one's) ground; to hold out, insist, persist; firm in friendship, constant; resolute, determined, persevering; having a fixed determination; certain, cofirmed, corroborated, undoubted. اسے کہتے ہیں باغِ معنی کی بہار دکھلانا۔ لفظ کھینچے لیے جاتا ہے، چلا جاتا ہوں۔ اب خود ہی انصاف سے کہیے کہ مجھ جیسا تہی دامن ایسا مترادف یا متبادل کہاں سے لائے، جسے اس جیسا کہیں۔ بالفرضِ محال لے بھی آئے تو اس پر سر دُھننے کے لیے Platts کو کہاں سے لائے گا؟ انکے Monocle نے مجھے ہفتوں سرگرداں و حیران رکھا۔ انکے چہرے پر وہ سجتا تھا اور وہ اس کا بہت برمحل، قدرے ڈرامائی اور مخالف کو پِچکا دینے اور چُپکا کر دینے والا استعمال کرتے تھے۔وہ سادہ اور تھوڑے لفظوں میں بڑی بات کہہ جاتے تھے۔ جہاں لفظ خاموش ہو جاتا ، وہاں لہجہ بولتا تھا! بعد میں علی گڑھ میں بھی انھیں سننے کی سعادت نصیب ہوئی، مجھے یوں لگا ’’چہرہ ہی چہرہ پاؤں سے سر تک‘‘ اور چہرہ بھی وہ جو غیر متزلزل عزم و استقامت کی تصویر ہو۔ شام کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے نو دس ہزار کے مجمع سے انگریزی میں خطاب کیا، آج بھی یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ زبان نہ سمجھنے والوں نے بھی انھیں توجہ، عقیدت اور احترام سے سنا کیونکہ اُسکے جاں نثاروں کو یقین کامل تھا کہ انکا سردار و سالار جب ، جہاں، جیسے اور جس زبان میں بھی بولے گا، سچ بولے گا، بے خوف و بے درنگ بولے گا۔ یہ اس عالی ہمت اور بلند نظر قائد اور اسکی ٹوٹی پھوٹی اُردو کا اعجاز تھا کہ درۂ خیبر سے راس کماری اور چمن سے چٹاگانگ تک ساری قوم ایک مرکز، ایک قائد اور ایک پرچم تلے ہم طریق و ہم آواز ہو کر جمع ہو گئی۔ اس کی شخصیت و قیادت کوہِ ندا کی مانند تھی جس کی جانب لوگ کشاں کشاں کھنچے چلے جاتے تھے۔ اس کی صدائے سدید نے اس خِطۂ ارض کی تاریخ اور جغرافیہ کو یکسر بدل کے رکھ دیا۔ چلے چلتے تھے رہرو ایک آوازِ اَخی پر جُنوں تھا یا فُسوں تھا ، کچھ تو تھا جو ہو رہا تھا جو ہو رہا تھا، ہونا تھا اور ہو کے رہا وہ یہ تھا کہ نسلوں کے دکھ درد کا درماں اور صدیوں کی زبوں حالی کا مداوا مل گیا۔ ملتِ اسلامیہ کا ایک نیا، آزاد اور طاقت ور ملک وجود میں آ رہا تھا۔ ایسا ملک جو بفضلِ خداوندی قائم و پائندہ و تابندہ رہے گا۔ جن آنکھوں نے تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت، برٹش امپائر کا، جس میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا، یونین جیک فلیگ اسٹاف سے سامراج کے جھُٹپٹے میں اُترتے دیکھا اور اس کی جگہ سبز ہلالی پرچم بلند ہوتے اور لہراتے دیکھا، وہ اس منظر اور ساعتِ مسعود کو کبھی نہ بھلا سکیں گی۔ ان آنکھوں نے پاکستان بننے کا جواز اور تاریخی جدوجہد دیکھی۔ کیا بیسویں صدی میں، کسی بھی ملک یا قوم میں ایسا عظیم و جری لیڈر گزرا ہے، جس نے اپنی قوم سے پانچ گنا عددی اکثریت کی شدید اور مدتِ مدید تک مخالفت کے باوجود ایک وسیع و عریض نظریاتی ملک کی بنیاد ڈالی اور ایک خواب کو حقیقت کر دکھایا؟ ‘‘