آزادی چھن جانے کا دوسرا نام قفس ہے۔ جیل جانے کے بعد ہی انسان کو احساس ہوتا ہے کہ طائرِ نو گرفتار پہلے پہل قفس میں پھڑ پھڑاتا کیوں ہے۔ اگرچہ ہمارے گھر میں میرے بچپن سے ہی جیل اور ریل معمول کی کارروائی سمجھی جاتی تھی۔ والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہری سید ابوالاعلیٰ مودودی کے فلسفہ و فکر کی آشنائی سے پہلے سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی خطابت سے بہت متاثر ہو چکے تھے اور اپنی تقاریر میں احراری لب و لہجہ اپنا چکے تھے۔ لہٰذا دو سیدوں کی عظیم رفاقت نے والد گرامی کی خطابت کو دو آتشہ بنا دیا تھا۔ اس شعلہ بیانی کا نتیجہ یہ ہوتا کہ جماعت اسلامی پر حکومتی عنایات کے علاوہ والد صاحب کی تقریری گھن گرج کی بنا پر آئے روز کوئی نہ کوئی افتاد ان کی منتظر ہوتی اور ان کے لئے زنداں کا دروازہ کھلتا اور بند ہوتا رہا۔ تاہم ہماری والدہ کی زبانی اور اس حوالے تسنیم و کوثر جیسے اخبارات سے ہمیں اچھی طرح معلوم ہو گیا تھا کہ ہمارے والد کی قید سر جھکانے والی نہیں سر اٹھا کر چلنے والی ہے۔ ذاتی طور پر ہمیں نوعمری بلکہ کم عمری میں دور ایوبی کے دوران دوراتیں حوالات میں گزارنے کا تجربہ ہوا۔ تیسرے روز جب سیشن جج باقر حسین کے سامنے ہمیں ہتھکڑیاں لگا کر پیش کیا گیا تو انہوں نے میری کلائی میں گھومتی ہوئی ہتھکڑی دیکھ کر ارتجالاًیہ مصرع پڑھا: اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے سیشن جج نے فوری طور پر ہم چار پانچ طالب علموں کی ضمانت لی اور ہماری ہتھکڑیاں کھولنے کا حکم دیا۔ دیوار قفس کو ہاتھ لگا کر زندانیوں میں اپنا نام لکھوا کر ہمیں یہ اندازہ ضرور ہو گیا کہ جب آزادی چھن جائے تو انسان تلملاتا ضرور ہے۔ ہمارے سیاست دانوں اور صحافیوں نے اپنی اپنی روداد قفس کو قلمبند کر کے نہایت قابل قدر زندانی ادب تخلیق کیا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے ایام اسیری کو مکاتیب کی صورت میں لکھا جو ’’غبار خاطر‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ ممتاز و مشہور صحافی آغا شورش کاشمیری نے جیل کے شب وروز کے بارے میں ’’پس دیوار زنداں‘‘ اور ’’موت سے واپسی‘‘لکھیں۔ اسی طرح پروفیسر خورشید احمد نے ’’تذکرہ زنداں‘‘ کے نام سے روداد قفس بیان کی ہے جبکہ سید اسعد گیلانی نے ’’قافلہ سخت جاں‘‘ لکھی اور خوب لکھی ہے۔ اسی طرح ایام اسیری کی داستان حافظ محمد ادریس نے ’’دریچہ زنداں‘‘ کے نام سے جبکہ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ’’چاہ یوسف سے صدا‘‘ کے عنوان سے اور جاوید ہاشمی نے بھی اپنی اسیری و رہائی کا نہایت اثر انگیز داستان ایک کتابی صورت میں سنائی ہے۔ نواز شریف کی پہلی داستان اسیری مشہور صحافی سہیل وڑائچ نے ’’نواز شریف کی کہانی ان کی زبانی‘‘ بیان کی ہے۔ ان سب کتب کے مطالعے سے یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ عام زندگی میں مصروف و مشغول رہنے والے شخص کو قفس میں جا کر خود کلامی کا موقعہ ملتا ہے۔ انسان اگر سلیم الطبع اور خوش نصیب ہو تو یہ خود کلامی اس کے لئے خود شناسی اور خدا شناسی تک کا سفر آسان بنا دیتی ہے۔ سہیل وڑائچ کی کتاب میں میاں نواز شریف کے ساتھ ان کے سوالات و جوابات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات کے حوالے سے میاں صاحب آئین اور اپنے دائرہ کار اور اپنے اقتدار و اختیار کی زیادہ باتیں کرتے سنائی دیتے ہیں۔ میاں نواز شریف جیل میں بیمار ہیں۔ ان کے مقدمات سے قطع نظر انہیں علاج معالجے کی ہر ممکن سہولت ملنی چاہیے۔ ماضی کی ساری تلخیاں بھلا کر جس طرح پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جیل جا کر میاں صاحب سے ملے اور ان کی تیماری داری کی یہ بہت اچھی بات ہے۔ یہ رواداری اور باہمی دلداری ہماری سیاست میں آئے گی تو ہماری سیاست سے تلخیاں کم ہوں گی اور دوریاں قربتوں میں بدلیں گی۔ اگرچہ ہم فیاض الحسن چوہان اور فواد چودھری میں انیس بیس کا ہی فرق سمجھتے تھے مگر بلاول بھٹو زرداری کی جیل جا کر میاں نواز شریف کی عیادت کرنے کے خوشگوار اقدام کی جتنے تلخ الفاظ میں چودھری صاحب نے مذمت کی ہے اس نے فواد چودھری اور چوہان صاحب کے درمیان انیس بیس کے فرق کوبھی مٹا دیا ہے۔ ہم بالعموم افراد کا نام لے کر تبصرہ کرتے ہیں نہ تنقید مگر اچھائی کی مذمت اور برائی کی پذیرائی ہمیں ایک آنکھ نہیں بھائی۔ بلاول بھٹو سے ملاقات کے موقع پر میاں نواز شریف نے ایک اہم بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جو غلطیاں کیں سو کیں مزید گنجائش نہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ میاں صاحب کا اشارہ کن غلطیوں کی طرف تھا۔ اس اجمال کی تفصیل یا تو میاں صاحب خود بیان کر سکتے ہیں‘ یا بلاول بھٹو اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں یا پھر گزشتہ روز ان کے بھائی میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز اس بارے میں کچھ سن گن لے آئے ہوں گے یا پھر مریم نواز اگر چاہیں تو بہت کچھ بتا سکتی ہیں۔ ہم تو صرف اندازہ لگا سکتے ہیں یا قیاس آرائی سے کام لے سکتے ہیں۔ اصل بات تو میاں نواز شریف کے نہاں خانہ دل میں ہی ابھی تک پنہاں ہے۔ میاں صاحب کا اشارہ تین طرح کی غلطیوں کی طرف ہو سکتا ہے۔ایک اشارہ تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے تعلقات کے سلسلے میں ہو سکتا ہے۔ میاں صاحب سوچتے ہوں گے کہ ہم نے لندن کے میثاق جمہوریت کے باوجود ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی پالیسی اختیار کئے رکھی اور یوسف رضا گیلانی جیسے مرنجاں مرنج منتخب وزیر اعظم کو عدالت سے نااہل قرار دلوانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ نیب کے لامحدود غیر عادلانہ اختیارات کو عدالتی دائرے میں لانے کے لئے باہمی تعاون نہ کیا اور ایک دوسرے کے خلاف ایسے الفاظ استعمال کئے کہ جن کے بعد ایک دوسرے سے آنکھیں ملانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ میاں صاحب نے اپنے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کو خوشگوار سے ناخوشگوار بنانے اور زمینی حقائق کو نظر انداز کرنے اور بعض غیر ضروری بیانات کے سلسلے میں شاید اپنی غلطیوں کے بارے میں سوچا ہو گا اور چودھری نثار جیسے جاں نثاروں کی تلخ نوائی کی پذیرائی نہ کرنے کے بارے میں بھی غور کیا ہو۔ اور غلطیوں کے سلسلے میں میاں صاحب کا تیسرا اشارہ پارلیمنٹ کے بجائے پانامہ کیس وغیرہ کے معاملات کو عدالت میں لے جانے کی غلطی ہو سکتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ پس دیوار زنداں خود کلامی اور خود احتسابی کے کسی خوش نصیب لمحے میں میاں صاحب نے اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا ہو کہ ع زاہد ترے عرفان سے کچھ بھول ہوئی ہے شاعر نے کہا تھا کہ ؎ قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈر ہمدم گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو شاعر کو تو یہ خوش فہمی تھی مگر میاں صاحب کو قفس میں جب کوئی روداد چمن سناتا ہے تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کے ہی آشیانے کی بات ہو رہی ہے۔