ایک واقعہ یونیورسٹی کے زمانے کا ہے جسے آج تک بھلا نہ سکا۔ ایک خاتون جرنلسٹ نے پوچھا: ’’آپ لکھتے کیوں ہیں؟‘‘ عرض کیا‘ اس لیے کہ لکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے اور تحریر چھپ جائے تو بھی خوشی ہوتی ہے۔ چھپی ہوئی تحریر پڑھ کر کوئی اس پر تبصرہ کرے‘ حوصلہ افزائی کے دو بول کہہ دے تو بھی خوشی ہوتی ہے اور خوش قسمتی سے تحریر کا معاوضہ مل جائے تو خوشی دوچند ہو جاتی ہے۔ اتنی ڈھیر ساری خوشیاں لکھنے ہی سے لکھنے والے کو ملتی ہیں۔ اس لیے میں لکھتا ہوں اور جب تک میرے جسم میں آخری سانس باقی ہے‘ میں لکھتا رہوں گا۔ وہ خاتون جو کسی رسالے کے لیے سروے کر رہی تھیں‘ یہ سب نوٹ کر کے رخصت ہو گئیں۔ ان کے جانے کے بعد میں نے تنہائی میں سوچا کہ کیا ایسا ہی ہے کہ میں ان خوشیوں کے لیے لکھتا ہوں یا لکھتا اس لیے ہوں کہ لکھنے پر مجبور ہوں۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ بہت لکھ لیا‘ اب بس کردوں۔ چنانچہ میں لکھنا چھوڑ دیتا ہوں۔ لیکن جلد ہی یہ احساس بے چین کر دیتا ہے کہ میں لکھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مجھے ضرور لکھنا چاہیے۔ تاریکی ہے کہ بڑھتی جاتی ہے۔ اندھیرا‘ گھبمیر اندھیرا،گہرا اور گہرا ہوتا جاتا ہے۔ اہل قلم کے سارے تجزیے‘ سیاست و سماج پہ سارے تبصرے رائیگاں چلے جاتے ہیں۔ تبدیلی ہمارے معاشرے میں قلم اور اہل قلم کے تابع نہیں۔ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں‘ پالیسیاں کہیں اور بنتی ہیں‘ برے بھلے کے معیارات مقرر کرنے والے کوئی اور ہیں۔ کم سے کم اہل قلم تو بالکل ہی نہیں ہیں۔ تو پھر کیوں لکھا جائے؟ کیا کالم نگار‘ دانش ور اور صاحب فکر و نظر کہلوانے کے لیے۔ کیا صورت حال اتنی ہی مایوس کن اور مخدوش ہے یا یہ ہماری بیتابی اور جلد بازی ہے کہ بیس پچیس برسوں کی قلم سوزی ہی میں ہمت ہار بیٹھے اور میدان چھوڑ کر مفرور ہونے میں راہ نجات نظر آ رہی ہے؟ قومیں حالت زوال میں صدیاں گزار جاتی ہیں تب کہیں راہ نجات ملتی ہے۔ بھلا بیس پچیس برسوں میں بھی قلم سے کوئی تبدیلی آئی ہے۔ تبدیلی اور انقلاب کی ڈائنامکس اور ہیں۔ اس کا حساب کتاب کہیں اور ہی تیار ہوتا ہے۔ ہمیں تو بس لکھنا ہے اور لکھتے رہنا ہے اورانتظار کرنا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ پچھہتر برسوں کے پاکستان پر جو ظلم و ستم ڈھائے گئے اس کے ان برسوں کا حوالہ گفتگو اور تحریروں میں بہت دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کا رونا یہ ہے کہ جمہوریت نہ ہونے کی وجہ سے ہماری منزل کھوٹی ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستان میں تو جمہوریت آزادی کے بعد سے ہی نافذ رہی وہ کیوں زوال وانحطاط کے شکنجے میں ہے۔ کیوں مذہبی فرقہ واریت‘ بدعنوانی اور طاقتور طبقوں کی بدمعاشیوں کے عفریت نے اس سب سے بڑی جمہوریت کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ وہ جمہوریت جس کی مالا ہم دن رات جپتے رہتے ہیں‘ کیوں ہندوستان کو ایک روشن خیال‘ مہذب و متمول اور ترقی یافتہ ملک نہ بنا سکی۔ تو معلوم ہوا کہ یہ ملکوں کے اندر انتشار و افراتفری‘ یہ نفسا نفسی اور تہذیبوں کو اندر ہی اندر گھن کی طرح چاٹ جانے والی وجوہات اور اسباب کچھ اور ہیں۔ ہم اپنے اطمینان کے لیے ظاہری اور سطحی اسباب کو ہی حتمی اور فیصلہ کن سمجھ لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا اور یہاں کے معاملات اور اسباب و محرکات وہ نہیں ہیں‘ ہرگز بھی وہ نہیں ہیں جو ہم سمجھے بیٹھے ہیں۔ انسان بسا اوقات چابی سے چلنے والا کھلونا بن جاتا ہے اور نہیں جانتا کہ وہ کھلونا ہے۔ اقتدار کا آنا جانا‘ قوموں کا عروج و زوال‘ ملکوں کا اٹھنا اور گرنا یہ سب… مگر جانے دیجئے۔ یہ کہنے کی باتیں نہیں ہیں اور کہہ بھی دیا جائے تو کون یقین کرے گا۔ زندگی کو اسی طرح خلق کیا گیا ہے کہ انسان مستقل حالت غفلت میں ہے۔ حقیقت کی تہہ تک کبھی نہ پہنچ سکے۔ کیونکہ دنیا کی یہ گہماگہمی اور یہ ساری رونقیں اسی غفلت کے دم قدم سے ہیں۔ وہ جو روایت میں آتا ہے کہ لوگ سو رہے ہیں جب مر جائیں گے تو جاگیں گے۔ اس کا یہی مفہوم ہے۔ یہ جینا حقیقی جینا نہیں ہے۔ حقیقی جینا وہ ہوگا جو ہمیں موت کے بعد نصیب ہوگا۔ جب حقائق پر سے پردے اٹھا دیئے جائیں گے اور اس زندگی کی اور خود انسان کی حقیقت بھی اس پہ کھول دی جائے گی۔ لکھنا اور مسلسل لکھنا کسی طرح بھی لاحاصل نہیں۔ قلم سے نکلا ہوا ایک فقرہ‘ ایک جملہ بھی کہاں کہاں پہنچ سکتا ہے اور کتنے دلوں میں کھب سکتا ہے‘ کتنوں کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے‘ اس کا اندازہ خود لکھنے والے کو بھی نہیں ہو پاتا۔ کتنے لوگ ہیں جو یہ جان پاتے ہیں کہ تحریروں نے ان کے مزاج‘ کردار اور عادات پہ کتنا اور کیسا اثر ڈالا۔ تحریریں‘ کہانیاں‘ ناول‘ مضامین‘ کالم‘ شاعری اور ان کا مطالعہ انسان کے باطن میں خاموشی سے اتر جاتا ہے اور اسے جو کام کرنا ہوتا ہے‘ وہ کر جاتا ہے۔ اس کا علم نہ لکھنے والے کو ہوتا ہے نہ اس کے قاری کو۔ اسی لیے کہا گیا کہ قلم گوید کہ من شاہ جہانم۔ قلم کی پکار ہے کہ میں ہی اس جہان کا شہنشاہ ہوں۔ ہاں یہ قلم ہی ہے جو ذہنوں میں نئے خیالات پیدا کرتا ہے اور یہ قلم ہی ہے جو روحوں میں اضطراب کو جنم دیتا ہے۔ دنیا میں آج تک جو بھی ترقی اور تعمیر ہوئی ہے‘ اس کامیابی کا سہرا قلم اور اہل قلم ہی کے سر ہے۔ چاہے کوئی نہ مانے۔ آج کا زمانہ قلم کی بے توقیری اور بے اہمیتی کا ہے۔ یہ الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے۔ اس میں قلم اور کتاب کو دھکیل کر دیوار سے لگانے کی دانستہ یا نادانستہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ معاشرہ بدل گیا ہے اور دنیا بھی بدلتی جاتی ہے۔ نئے معاشرے اور نئی دنیا کی ترجیحات اور ہیں اور ان نئی ترجیحات میں قلم اور کاغذ کا کوئی مقام نہیں ہے لیکن اس میں مایوسی کا پہلو نہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی اب اپنے عروج کا دائرہ مکمل کر لے گی تو ان کا عادی اور اسیر انسان ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھے گا۔ یہ تخمینہ لگانے کے لیے کہ یہ ہم نے کیا کیا؟ جو کچھ پایا ہم نے وہ کچھ نہیں ہے اور جو کچھ کھو دیا ہے وہ بہت کچھ ہے بلکہ سب کچھ ہے۔ تب انسان رجوع کرے گا قلم کی طرف کتاب کی طرف۔ اور ان لمحات کی طرف جب وہ کہتا تھا کہ چمن ہو‘ فراغت کے لمحات ہوں‘ گوشہ تنہائی ہو اور کتاب ہو۔ یہی ہے جنت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دن ضرور طلوع ہوگا لیکن کتنا اور کیا کچھ کھوکر۔ اس کا بہی کھاتہ کوئی بنائے بھی تو کیسے کہ ابھی تو ہمیں تخریب کے نظارے ہی سے فرصت نہیں۔