حِکمت و دانش کے باب میں مردِ دانا حکیم لُقمان کی حیثیت اور شخصیت ایک معتبر اور مسلمہ مقام رکھتی ہے، بعض لوگ اسے نبوت کے درجے پر فائز سمجھتے ہیں اور بعض کے نزدیک۔۔۔ وہ نبی تو نہیں ، لیکن انبیاء کے خاندان سے ہیں اور وہ انہیں حضرت ایوب ؑ کا بھانجا یا خالہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں ۔ قرآن پاک میں ان کے نام سے ایک پوری سورۃ موجود ہے، جس میں ان کے حکیما نہ پندو موعظَت کا ذکر ہے، حضرت ابنِ عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایاکہ لُقمان نبی نہیں تھے، بلکہ وہ غوروفکر کے خوگر اور دولتِ یقین اور علم و حکمت سے مالا مال ہستی تھے، انہیں اللہ تعالیٰ سے محبت تھی ، اور اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت فرماتا تھا ، حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے ’’حِکمت ‘‘ کی تشریح عقل اور فِہم و فراست سے کی ہے۔ امام راغبؒ کہتے ہیں کہ حکمت سے مُراد موجودات کا صحیح علم اور اچھے کام کرنا ہے ، جبکہ امام فخر الدین رازی ؒفرماتے ہیں کہ علم کے مطابق عمل کرنے کی توفیق کو’’حکمت ‘‘کہتے ہیں،سورہ لُقمان، کی آیت نمبر چودہ میں حضرت لُقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصیحت کی ہے ، وہ بطور خاص والدین سے حُسنِ سلوک کے حوالے سے ہے۔ ارشاد ہے:’’اور ہم نے تاکید حکم دیا انسان کو، کہ اپنے والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کرے، شکم میں اُٹھائے رکھا ہے اُسے اسکی ماں نے، کمزوری پر کمزوری کے باوجود ، اور اسکا دودھ جھوٹنے میں دو سال لگے(اس لیے ہم نے حکم دیا) کہ شکر ادا کرو میرا اور اپنے ماں باپ کا ، آخرکار میری طرف ہی (تمہیں) لوٹنا ہیـ‘‘۔بلا شُبہ ماں باپ دونوں ہی کا اولاد پر حق ہے، لیکن ، دونوں میں سے ، ماں کے حق کو بہت زیادہ فائق کیا گیا ہے ، اس لیے کہ بچے کی ولادت کے حوالے سے وہ جس طرح مشقت اُٹھاتی ہے ، اسکو قرآن پاک نے بیان کردیا کہ وہ نو ماہ تک اپنے بچے کو اپنے شکم میں اُٹھائے رکھتی ہے، وہ اپنی جسمانی نزاکت اور ساخت کے سبب مرد سے پہلے ہی نسبتاً کمزور ہوتی ہے ، اور پھر حمل کی مشقت اور گرانی اُسے مزید کمزور اور ناتواں کردیتی ہے۔ اور اس طویل عرصے میں ، اُسے آئے دن کوئی نہ کوئی دشواری اور دِقّت بھی درپیش رہتی ہے، پھر بچے کی ولادت کا جانگسل اور صبر آزما مرحلہ درپیش ہوتا ہے، اِن مشقت طلب اور مشکل مرحلوں سے سُرخُرو ہونے کے بعد بھی بچے کی شیر خوارگی کے ان ابتدائی ایّام میں ، ایک عرصہ تک وہ اسے اپنا خون جگر پلاتی اور دِن رات، اپنے نور نظر کی خدمت اور نگہداشت میں صَرف کرتی ہے۔ اِن ساری آزمایشوں اور مشقتوں میں، نہ تو اسے کوئی لالچ ہوتا ہے اور نہ ہی احسان یا کسی معاوضہ کی اُمید، بلکہ محض پیار اور محبت کا وہ فطری جذبہ جو قدرت نے اسکو ودیعت کیا ہے ، وہ اس کے زیر اثر ، یہ عظیم فریضہ سر انجام دیتے ہیں ، اس لیے حضور ﷺ نے بار بار ماں کی خدمت گزاری کی تلقین فرمائی، جیسا کہ ارشاد نبوی ہے کہ :کسی شخص نے حاضر خدمت ہوکر دریافت کیا:یار سول اللہ !مَنْ اَ بَرُّ۔۔۔؟’’یعنی میں کس کے ساتھ احسان کروں‘‘؟ فرما یا: اُمُّک’’اپنی ماں کیساتھ‘‘۔ اس نے دوبار عرض کیا :ثُمَّ مَنْ’’ اس کے بعد کس کیساتھ‘‘؟فرمایا:اُمُّکَٔ’’اپنی ماں کیساتھ‘‘اور دوبارہ پھر عرض کیا : ثُمَّ مَنْ’’ اس کے بعد کس کیساتھ؟ فرمایا: اپنی ماں کیساتھ، چوتھی بار اس نے پھر یہی سوال کیا، فرمایا: اَ بُوکَٔ اپنے باپ کیساتھ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے اس مقام پر اپنے شکر کرنے کیساتھ والدین کا شکر ادا کرنے کا حکم بھی ساتھ ملا کر بندہ نوازی کی اِنتہا فرماتے ہوئے، والدین کے اعلیٰ اور ارفع مقام کی وضاحت فرمادی۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی بدبخت اپنے والدین کی خدمت کو حرزِ جاں نہیں بناتا اور انکی خدمت کرکے ، ان سے دُعائیں نہیں لیتا ، تو بڑی بدقسمتی ہے۔قرآن پاک میں سورۃ الا حقاف کی آیت پندرہ میں بھی اسی حوالے سے ایک اہم حُکم ہے :ارشاد ہے کہ:’’ہم نے حکم دیا ہے انسان کو کہ اپنے والدین کیساتھ اچھا سلوک کرے ، اٹھائے رکھا اسکو اسکی ماں نے (اپنے شکم میں) بڑی مشقت سے ، اور جنا اسکو بڑی تکلیف سے اور اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے تک تیس مہینے لگ گئے، یہاں تک کہ وہ جب اپنی پوری قوت کو پہنچا اور چالیس برس کا ہوگیا تو اس نے عرض کی اے رب!مجھے والہانہ توفیق عطا فرما کہ میں شکر ادا کرتا رہوں، تیری اس عظمت کا جو تونے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمائی ، اور میں ایسے نیک کام کروں، جنکو تو پسند فرمائے اور صلاح(ورُشد) کو میرے لیے میری اولاد میں راسخ فرمائے‘‘،امام فخر الدین رازیؒ جو بلند پایہ مُفسر ہونے کیساتھ، اپنے عہد کے مایہ ناز فلسفی بھی تھے ، انہوں نے اس آیت کے ضمن میں ان تبدیلیوں کا ذکر کیا ہے ، جن سے بچہ( جننیں) کو دوران حمل گزرنا پڑتا ہے اور کس طرح ماں کی ساری طاقت اور توانائی قرار حمل ہی سے ، اسکی پرورش اور نگہداشت میں لگ جاتی ہے ، اور پھر کسطرح اسکی ولادت کے بعد اسکو دودھ پلانے کا مشقت آمیز عمل شروع ہوتا اور کسطرح ماں اپنے بچے کی آسانی کیلئے اپنی آسودگی اور آرام کو نظر انداز کرتی ہے ۔ سورہ لُقمان میں اس اَمر کو بھی واضح کردیا گیا کہ والدین کا مقام و مرتبہ، اگرچہ ازحد بلند ہے، لیکن اگر ان کے احکام شریعت الٰہی سے متصادم۔۔۔ بالخصوص شرک اور نافرمانی جیسے گناہوں پر مشتمل ہوں، تو پھر اسکی تعمیل ہر گز ضروری نہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓفرماتے ہیں کہ قرآن پاک میں یہ آیت ان کے حق میں نازل ہوئی، وہ کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کا بڑا فرمانبردار اور اطاعت گزار تھا، ہمہ وقت انکی خدمت اور دلجوئی کیلئے کمر بستہ رہتا ، اللہ تعالیٰ نے مجھے جب نعمت ایمان سے مشرف کیا، تو میری والدہ ، مجھ سے سخت ناراض ہوگئی، میری والدہ نے کہا! اے سعد! تم نے کیا حرکت کیـ؟ اگر تونے اس نئے دین کو نہ چھوڑا تو میں اپنا کھانا پینا بند کردونگی، یہاں تک کہ اسی حالت میں جان دے دونگی اور اس ساری صورتحال کے ذمہ دار چونکہ تم ہو ، اس لیے لوگ تجھے موردِ الزام ٹھہرائیں گے اور تجھے اپنی ماں کا قاتل کہیں گے اور یوں دنیا بھر میں تیری رسوائی ہوگی، میں نے عرض کیا اماں جان: ایسا نہ کرو، میں کسی قیمت پر بھی اپنا دین نہیں چھوڑونگا۔ لیکن وہ بضد رہی، دن بھر کچھ نہ کھایا، پیا اور رات بھی یوں ہی گزرگئی،نتیجۃًنقاہت اور کمزوری نے آن لیا ، دوسرا دن اور رات بھی اسی طرح فاقے سے گزرا، کمزوری انتہاکو پہنچ گئی ، اپنی ماں کی یہ ضد دیکھ کر حضرت سعد بن وقاصؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا! اماں جاں! تو خوب جان لے ، اگر تیری سوجانیں ہوں اور سب ایک ایک کرکے نکل جائیں تو خدا کی قسم! میں اپنے دین کو پھر بھی نہیں چھوڑوں گا۔ اب تیری مرضی ہے کہ تو چاہے تو کھانا کھا۔۔۔ یا نہ کھا، میں اپنا دین کسی قیمت پر ترک نہیں کرونگا۔ وہ کہتے ہیں ، میر ا عزم مصمم دیکھ کر ، میری ماں نے اپنا یہ رویہ ترک کر دیا ۔ یہ تھی استقامت جن کے مناظر اور مظاہِر اُس دور ِ رسالتمآب ﷺ سے بطور خاص وابستہ ہیں، جب صحابہؓ نے دین کیلئے گراں قدر قربانیاں دین ، جس کے نتیجہ میں شجرِ اسلام کی آبیاری ہوئی ۔