میڈیامیں صوبہ سندھ کے پسماندہ علاقے ضلع تَھر کے مسائل کا ذکر جب بھی سننے کو ملتاہے تو مجھے ژوب کا دور افتادہ سرحدی علاقہ تحصیل قمر دین کاریز یاد آتا ہے۔تھَر ایک حوالے سے پھر بھی خوش قسمت ہے کہ اس کی حالتِ زار کم از کم میڈیا میں خبروں کی زینت تو اکثر اوقات بنی رہتی ہے لیکن ہمارے قمر دین کاریز کا کیا کیجئے کہ نہ اس کے مسائل حل ہونے کا نام لے رہا ہیںنہ ہی ذرائع ابلاغ میں اس کی زبوں حالی پر بات ہوتی ہے -یہ سطور لکھتے وقت بھی قمر دین کاریز کے شہر کے وسط میں عوامی نیشنل پارٹی کے نوجوانوں کا احتجاجی دھرنا جاری ہے جو غالبا آج پانچویں دن میں داخل ہورہا ہے-اس بلوچستانی تَھر کے مسائل پر بہت پہلے کچھ لکھنے کا میراارادہ تھا تاہم ہمارے دوست شاعر اور اے این پی کے کارکن باز خان المیار نے گزشتہ روز وہاں کے مسائل سے آگاہ کرکے مجھے آج ہی اس بارے میں ایک مختصر کالم لکھنے کی طرف متوجہ کیا۔قمر دین کاریز کی پسماندگی کا اندازہ ہم اس علاقے ژوب اور ضلع قلعہ سیف اللہ سے ملانے والی سڑکوں سے لگا سکتے ہیں ۔ان سڑکوںپر سفر کرنے کے دوران مسافر بے چارے ایک ڈیڑھ گھنٹے کا فاصلہ چھ گھنٹوں میںطے کرنے کی وجہ سے انتہا درجے کے تکالیف اٹھاتے ہیں ۔ مجھے سال میں ایک آدھ مرتبہ جب بھی ژوب تاقمردین سڑک سے پالاپڑتاہے تو سوچتا ہوں کہ جس زمانے میں یہ سڑک کچی تھی تو اس کے اوپر کم از کم سڑک کا اطلاق تو ہوتا تھا لیکن جب سے ایک ٹھیکیدار نے اس کی تعمیر میں اپنی کام چوری ،فراڈ اور خیانت کا مٹیریل لگاکر اس کوپکی سڑک ڈکلیئر کیاہے تب سے یہ ’’سڑک کم ‘‘اوردرد سرِ زیادہ لگتاہے ۔خستہ حال سڑک کے علاوہ قمر دین کاریز کے غریب عوام کا دوسرا بڑا مسئلہ صحت اور تعلیم کا ہے جو ہنوز قابل رحم ہے ۔نام اور کاغذات کی حد تک تووہاں پر علاج معالجے کے لئے ڈسپنسریاں اور ایک آدھ شفاخانہ موجود ہے لیکن مریض اس کے باوجود بھی پانچ چھ گھنٹے کا کھٹن سفرطے کرکے ژوب کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال سے اپنا علاج کرواتے ہیں۔ ایک مرتبہ قمردین کے ایک معمرشخص سے وہاں کی ڈسپنسریوں کے بارے میں دریافت کیا تو ہنستے ہوئے انہوں نے ایک لطیفہ سنایا ۔ ان کا کہناتھا کہ’’ایک دفعہ گاوں کے حجرے کے کسی طالب علم سے کسی نے اسباق کے بارے پوچھا تو طالب علم نے کہاکہ اسباق کا خاص مزہ نہیں ہے کیونکہ جس دن مولوی صاحب پڑھانے کیلئے آتاہے تو میں غائب رہتاہوں اور جس دن میں حاضری دیتاہوں تو مولوی صاحب کہیں گئے ہوتے ہیں، مشکل سے ہفتے میں ایک دن دونوں سبق پڑھنے کیلئے ملتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اسی دن جمعہ پڑنے کی وجہ سے چھٹی ہوتی ہے ‘‘۔لطیفے کو اپنے علاقے کی ناقص نظام صحت پر فِٹ کرتے ہوئے اس شخص کاکہناتھا کہ قمردین میں ہم جب ہم اسپتال کارخ کرتے ہیں تو ڈاکٹر اور عملہ یاتو غائب رہتاہے یاپھر بنیادی وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ مریض کاعلاج نہیں ہوپاتا ۔اورجب ڈاکٹر ہمارے مریضوں کی مسیحائی کیلئے حاضرہوتاہے تو اس دن علی الصبح ہم اپنے مریض ژوب اسپتال روانہ کرچکے ہوتے ہیں‘‘۔ اسی طرح اس علاقے میں ناخواندگی بھی عروج پر ہے ۔ویسے سچی بات یہ ہے کہ تعلیمی نظام اس ناپرساں صوبے کے نام نہاد ترقی یافتہ شہروں کا بھی ہردور میںناگفتہ بہ رہاہے لیکن قمردین کاریز جیسے بدقسمت علاقوں میںاس شعبے کاحشر کچھ اور ہوتاہے۔شاید وہاں پر واحد فنکشنل تعلیمی ادارہ مفتی حبیب اللہ مختار کی زیرپرستی چلنے والا اسکول ہے جسے موصوف اور ان کے اساتذہ کافی محنت سے چلارہے ہیں ۔ بنیادی سہولتوں کے شدید فقدان کے علاوہ قمردین کو ژوب اورقلعہ سیف اللہ سے ملانے والی سڑکوں پر قبائلی تنازعات بھی حل ہونے کا نام نہیں لے رہارہے۔ وہاں کے لوکل قبائل نے ان سڑکوں کو ٹریفک کے استعمال کیلئے اپنے درمیان تقسیم کیاہوا ہے جس کی بناء پر آئے روز تنازعات ہوتے رہتے ہیں اور مسافروں کوہمہ وقت گوناگوں تکالیف کا سامناکرنا پڑتاہے۔ حالیہ دنوں میں اس علاقے کے بارے میں ایک اچھی خبر یہ ملی ہے کہ قمرین تا ژوب سڑک کی ازسرنو تعمیرکے منصوبے کا عنقریب آغاز ہونے والا ہے تاہم اس حوالے سے مایوس کن خبریہ ہے کہ اس منصوبے کی راہ بعض لوگ ابھی سے رکاوٹیں کھڑی کرنے پر کمربستہ ہوچکے ہیں،جوکہ انتہائی افسوس ہے۔افغانستان سے آمدورفت کیلئے قمردین بارڈر پر گیٹ وے اس علاقے کے عوام کاایک دیرینہ مطالبہ رہاہے جوبدقسمتی سے ابھی تک حل نہیں ہواہے۔ ہمیں اچھی طرح علم ہیں کہ ایک علاقے کی پسماندگی کے سب سے زیادہ ذمہ دار وہاں کے لوگوںکی نمائندگی کرنے والے ایم پی اے اور ایم این اے حضرات ہوتے ہیں ۔یاد رہے کہ تحصیل قمردین کاریز کاشمار ماضی میں جس حلقے پی بی 19میں ہوتاتھاجہاں سے شیخ جعفر خان مندوخیل صاحب بلوچستان اسمبلی کے لئے مسلسل چھ مرتبہ منتخب ہوئے تھے ۔ موصوف ایم پی اے (بلکہ کئی مرتبہ وزیربھی رہ چکے ہیں) ہر انتخابی معرکے دوران قمر دین کاریز کے لعون اور مردان زئی قبائل کے سادہ لوح عوام سے ووٹوں کے بھرے تھیلے تووصول کرتے تھے لیکن تیس پچیس سال کے طویل عرصے میں اُن سے ایک معیاری سڑک بھی تعمیر نہیں ہوسکی۔ شیخ صاحب جن مخصوص افراد کو نوازتے تھے تووہ صرف علاقے کے بااثر افراد اور ملَکان صاحباں ہواکرتے تھے جو شیخ صاحب کیلئے اگلے انتخابات میں اچھا ہوم ورک کرسکتے تھے ۔2018ء کے انتخابات میں شیخ صاحب کی بجائے ایک نوجوان امیدوار مٹھا خان کاکڑکو ضلع ژوب کی نمائندگی کرنے کا موقع دیاگیا ۔جیت کے بعدبی اے پی (BAP) کو جوائن کرکے مٹھاخان صاحب کو الحمدللہ وزارت کا قلم دان بھی ملا البتہ یہ اور بات ہے کہ اس وزارت کو موصوف سے زیادہ ان کا بھتیجا کیش کررہاہے۔بہر کیف سرِدست اس نئے نمائندے کے بارے میں مَیںکوئی رائے قائم نہیں کرسکتاکیونکہ کردارکے میدان میں وہ ابھی ابھی وارد ہوئے ہیں۔ تاہم سال دوسال کے بعدان کی آئوٹ پٹ پرضرورکچھ لکھیں گے ۔آخر میں ایک مرتبہ پھر ضلع ژوب کے منتخب نمائندوں اور ذمہ داراں سے دست بستہ اپیل کرتا ہوں کہ اس ڈیجیٹل دور میںقمردین کاریز کے عوام کیلئے کچھ کرلیںاور اس کے غریب لوگوں کو اپنا سمجھیں۔