کسی ملک کے عوام میں حکومت سے بے اطمینانی بڑھ جائے تو سامراجی قوتیں اس صورتحال سے کس طرح فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں اسکی تازہ ترین مثال قازقستان ہے۔ وسط ایشیا کے شمالی ملک قازقستان کے شہروں میں حکومت کو نکالنے کیلئے اتنا پُر تشدد عوامی احتجاج ہوا ہے جسے سختی سے کچلنے کے لیے وہاں کی سرکاری فورسز کے ساتھ ساتھ رُوس کے ڈھائی ہزار فوجی پہنچ گئے ہیں۔ ملک کے صدر توکایف نے مظاہرین کو موقع پر گولی مارنے کا حکم جاری کردیا ہے۔ مظاہروں کا سلسلہ تین جنوری کو ملک کے سب سے بڑے شہر الماتے کے نواحی شہر نور سلطان (سابقہ آستانہ) میںشروع ہوا ۔ چند روز میں یہ ہنگامے اتنے شدید ہوگئے تھے کہ لوگوں نے الماتے میں عمارتوں پر حملے شروع کردئیے اور انہیں آگ لگانی شروع کردی۔ کچھ دیر کیلئے مظاہرین نے ایئرپورٹ پر قبضہ کیے رکھا۔ قازقستان کے صدر نے وزیراعظم کو برخواست کرکے ملک میں ہنگامی حالات کا نفاذ کردیا۔ عوام سے جھڑپوں میں ایک درجن سے زیادہ سیکیورٹی فورسز کے اہلکار ہلاک اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں جبکہ درجنوں مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں۔ الماتے کے بعد یہ ہنگامے ملک کے دیگر شہروں میں پھیلتے گئے۔ تقریباً دو کروڑ آبادی پر مشتمل قازقستان وسط ایشیا کا ایک وسیع و عریض ملک ہے جو رقبہ میں مغربی یورپ کے برابر ہے۔ اسکی ستر فیصد آبادی مسلمان اور چھبیس فیصد مسیحی ہے۔ یہ رُوس کا ہمسایہ ملک ہے۔ قازقستان کے لوگوں کے احتجاج کی فوری وجہ تو یہ بنی کہ حکومت نے تیل‘ گیس کی قیمتوںمیں اضافہ کردیا تھا۔ جب ایک دفعہ لوگ برہم ہوکر سڑکوں پر نکل آئے تو ان کی دیگر دبی ہوئی شکائتیں سامنے آنے لگیں۔ ایندھن کی مہنگائی نے صرف ایک مہمیز کا کام کیا۔اب لوگ ملک کے آمرانہ سیاسی نظام میں جمہوری تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ قازقستان حکومت نے فورا تیل ‘ گیس کی قیمتیں کم کرنے کا اعلان کردیا تاکہ لوگوں کے ناراضگی کی بنیادی وجہ ختم ہوجائے ۔ حکومت نے عوام کو مختلف اشیا ئے ضرورت رعایتی قیمتوں پرمہیا کرنے کے لیے سبسڈی کا اعلان بھی کیا لیکن ہنگامے رُک نہیں سکے۔ قازقستان میں اوسط سالانہ تنخواہ تقریباً بارہ لاکھ پاکستانی روپے ہے ۔ گویا پاکستان کے مقابلہ میں قازقستان خاصا خوشحال ملک ہے ۔ یہ وسط ایشیا کا سب سے امیر ملک ہے۔لیکن عوام کی توقعات زیادہ ہیں۔ احتجاج کرنے والے قازقستانی زبان میں نعرے مار رہے تھے کہ ’بڑا آدمی نکل جائے‘ یعنی اسّی سال سے زیادہ عمر کے نورسلطان نذربائیوف اقتدار سے الگ ہوجائیں اور ان کا احتساب کیا جائے۔ نورسلطان نے سوویت یونین کے ٹوٹ جانے پر اُنیس سو اکیانوے میں آزاد قازقستان کے صدر کے طور پر اقتدار سنبھالا تھا ۔ تین برس پہلے دو ہزار انیس میں وہ صدر کے عہدے سے الگ ہوگئے تھے لیکن ایک بزرگ مدبر کے طور پر حکومت کے اہم فیصلوں میں شریک رہتے ہیں۔ انہیں بابائے قوم کامنصب حاصل ہے اور وہ ملک کی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ ہیں ۔ نور سلطان نے اپنے جانشین صدر توکا یف کا انتخاب کیا تھا۔ نورسلطان کووسیع اختیارات اور سہولتیں دستیاب ہیں۔ انہیں احتساب سے استثنیٰ حاصل ہے۔ قازقستان میںجس بڑے پیمانے پر اور جس متشدد طریقے سے احتجاج ہوا ہے ملکی تاریخ میں اسکی نظیر نہیں ملتی۔ عام طور اس ملک کی شہرت ایک مستحکم ملک کی تھی۔ یہاں ایک آمرانہ حکومت قائم ہے جو سیاسی احتجاج وغیرہ کو سختی سے دبا دیتی تھی۔ قازقستان میں اپوزیشن جماعتیں ‘ سیاسی آزادیاں نہیں ہیں۔ پارلیمان ربڑ سٹیمپ ہے۔ قومی اور صوبائی لیڈر نامزد ہوتے ہیں ان کا الیکشن نہیں کیا جاتا۔ قازقستان حکومت کا موقف ہے کہ مظاہرین بیرون ممالک کے تربیت یافتہ دہشت گرد ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیو موجود ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ الماتے میں عام لوگوں میں اسلحہ تقسیم کیا جارہا ہے۔ رُوس‘ ایران‘ سربیا سمیت کئی ممالک نے بھی اسی موقف کا اظہار کیا ہے کہ قازقستان میں عوامی تحریک کے پیچھے بیرونی طاقتیں کارفرما ہیں۔ امریکہ اور یورپ یہاں اپنی پٹھو حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جب ہنگامے زیادہ بڑھ گئے تو قازقستان کے صدر توکا یف نے وسط ایشیائی ممالک اور رُوس پر مشتمل تعاون کی تنظیم (سی ایس ٹی او) سے درخواست کی کہ وہ امن قائم کرنے میں اُن کی مدد کرے۔ قازقستان کی آبادی کا ایک چوتھائی رُوسی نسل کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ممالک نے رُوس کے گھیراؤ کا منصوبہ شروع کیا ہوا ہے۔ مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کے جو ممالک ماضی میں کمیونسٹ سوویت یونین کا حصہ تھے انہیں امریکہ اور اس کے فوجی اتحاد نیٹو کے زیراثر لایا جارہا ہے۔ یہی کھیل یوکرائن میں کھیلا جا رہا ہے اور اب قازقستان میں۔ امریکہ اور یورپ کی جانب سے قازقستان میں شورش کو ہوا دینے کا مقصد یہ ہے کہ روس کی توجہ یوکرائن سے ہٹائی جائے جس کی سرحد پر رُوس نے ایک لاکھ فوجیں تعینات کی ہوئی ہیں تاکہ اگر یوکرائن نیٹو اتحاد میں شامل ہو تو بزور طاقت اس پر قبضہ کرکے اس عمل کو روکا جاسکے۔ مغربی ممالک کا خیال ہے کہ روس کے لیے بیک وقت یوکرائن اور قازقستان میں فوجی مداخلت کرنا مشکل ہوگا۔کریملن نے اپنی کچھ فوجیں بیلاروس کے قریب بھی تعینات کی ہوئی ہیں جہاں مغرب نواز اپوزیشن سرگرم ہے۔ امریکہ اور یورپ کی جانب سے رُوس کو مشرقی یورپ اور وسط ایشیا میں ایک چومکھی لڑائی میںالجھادیا گیا ہے۔ مغربی سامراج چاہتا ہے کہ ماسکو سے قوم پرست رہنما پیوٹن کی حکومت ختم ہوجائے اور ان کی جگہ ان کی پٹھو حکومت قائم ہو۔ایسی رُوسی حکومت جو ایران کی مدد نہ کرے اور چین کی اتحادی نہ ہو۔ چین کے مقابلہ میںدنیا پر امریکی سامراج کی بالا دستی قائم رکھنے کے لیے روس کا گھیراو ٔاور اسے زیر کرنا ایک طویل مدتی ‘تزویراتی منصوبہ ہے۔ قازقستان کی غیر مستحکم صورتحال دنیا پر بالادستی کی بڑی لڑائی سے جُڑی ہوئی ہے۔