سندھی ٹوپی سر پر پہنے ہوئے‘ ہسپتال کے بیڈ پر لیٹے ہوئے بیمار اور نڈھال اجمل نیازی صاحب پہچان میں نہیں آتے تھے۔ اس لئے کہ ہم نے انہیں ہمیشہ ہی میانوالی کی مخصوص پگڑی کے ساتھ دیکھا تھا۔ ایک وقار اور دیانت سے بھری انا کے ہالے میں۔ خوب صورت گفتگو کرتے ہوئے۔ لیکن یہاں سروسز ہسپتال کے کمرہ نمبر سی۔ فائیو میں ہسپتال کے مخصوص بیڈ پر دراز ڈاکٹر اجمل نیازی بے آواز گفتگو کرتے تھے کہ ایک ماہ سے پاکستانی ڈاکٹروں کے ہاتھوں طرح طرح کی ٹریٹمنٹ سے ان کے گلے میں شدید انفیکشن ہو چکی تھی اور ان کی مخصوص بیٹھی ہوئی آواز جس میں وہ حکمت اور دانش سے بھری گفتگو کرتے تھے اب بہت کوشش سے سنی جاتی اور وہ بھی اس طرح کہ ان کے گھر والے اہلیہ‘ بیٹا یا بہن کان لگا کر سنتے تھے اور سمجھتے ہیں۔ کل میں اور معروف شاعرہ خالدہ انور‘ ڈاکٹر اجمل نیازی کی عیادت کے لئے سروسز ہسپتال گئے۔ بیماری نے تو نہیں لیکن سفید کوٹ پہنے ڈاکٹروں کے روپ میں کچھ ناہنجاروں نے انہیں موت کے منہ کی طرف دھکیل دیا لیکن اللہ کا کرم اور دعائوں سے وہ واپس زندگی کی طرف لوٹ آئے ہیں۔ ہم جتنی دیر وہاں بیٹھے ڈاکٹر صاحب زیادہ تر آنکھیں موندے لیٹے رہے۔ کبھی کبھی آنکھیں کھول کر دیکھتے اور کوئی بات کرنے کی کوشش کرتے۔ وہی بے آواز گفتگو بیماری نے شریں سخن کو نڈھال کر رکھا تھا۔ ان کی اہلیہ زیادہ تر گفتگو یہی کرتی رہیں کہ کس طرح ڈاکٹروں کی غفلت سے ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب کی حالت بگڑی۔ ایک ماہ پہلے اپنے گھر کے غسل خانے میں پائوں پھسلنے پر اجمل نیازی صاحب کے کولہے کی ہڈی فریکچر ہوئی۔ اس کے علاج کے لئے مقامی ہسپتال میں داخل ہوئے۔ وہاں چھ دن میں دوران علاج اتنی شدید انفیکشن ہوئی کہ نمونیا ہو گیا۔ اس ہسپتال سے مطمئن نہ ہوئے تو ایک اور ہسپتال چلے گئے۔ جہاں ڈاکٹروں کی غلط تشخیص سے اور علاج سے صورت حال مزید بگڑ گئی۔ یہی کولہے کے فریکچر کا علاج کروانے والا مریض آئی سی یو میں پہنچ گیا اور اس ساری تکلیف کا ڈاکٹروں نے بل کی صورت لاکھوں روپیہ وصول کیا۔ ایک ہسپتال میں بل 6لاکھ بنا۔ دوسرے میں غالباً دس بارہ لاکھ کا بل اور اب ایک ماہ کے بعد سرکاری ہسپتال میں علاج جاری ہے۔ڈاکٹر اجمل نیازی دیانت اور قناعت کے وصف سے مالا ملا درویش صفت انسان ہیں۔ وحدت کالونی کے سرکاری گھر میں رہائش ہے۔ جو پہلے ڈاکٹر صاحب کے نام تھا اوراب ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری ملازم بیٹے کے نام پر ہے۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ قناعت میں گزر بسر کرنے والے اس درویش دانشور کی جیب پر لاکھوں کے اس علاج سے کتنا بوجھ پڑا ہو گا اور علاج بھی معکوس علاج۔ فریکچر کا علاج کرواتے کئی بیماریاں لگوانے والا۔ اس نقصان کا ازالہ کون کرے گا۔؟ ایک طرف مالی نقصان ہے اور دوسری طرف صحت جیسی دولت کا نقصان۔ کیا ڈاکٹر اجمل نیازی کو انصاف ملے گا۔؟ ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ تو جذباتی ہو کر یہ کہتی ہیں کہ ایک بار نیازی صاحب ٹھیک ہو جائیں تو میں خود اس تکلیف کی کہانی لکھوں گی جو ہسپتالوں میں ہم پر بیتی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو زوال اس سماج پر اترا ہے۔ ہسپتال بھی اس سے مبرا نہیں ہیں۔ ہسپتال جنہیں ہم شفاخانے کہا کرتے تھے اب خوف کی آماجگاہیں بن چکے ہیں۔ مریض جاتے ہوئے گھبراتا ہے کہ نہ جانے ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ کر اس کی زندگی اور صحت کے ساتھ کیا کھلواڑ ہو جائے۔ اب ڈاکٹر مسیحا نہیں رہے دکاندار بن چکے ہیں۔ فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے خرچوںپر سیر سپاٹے اور عیاشی کرنے والے ڈاکٹر بدلے میں مریضوں پر ان ہی فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی دوائیں تجرباتی طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مریض اب تجربہ گاہیں بن چکے ہیں۔ اناڑی ڈاکٹروں کے ہاتھوں میں مریضوں کی زندگی ہر وقت دائو پر لگی رہتی ہے۔سرکاری ہسپتال جہاں سمجھا جاتا تھا کہ بہترین علاج ہوتا ہے اور مریض کی بہترین دیکھ بھال ہوتی ہے۔ میرے دو بہت قریبی عزیروں کا ان ہسپتالوں کا تجربہ انتہائی خوفناک رہا۔ لیکن پھر وہی بات کہ کانٹوں کے ساتھ پھول بھی ہیں کچھ قابل اور فرشتہ صفت مسیحائوں کی بدولت بگڑی ہوئی صورت اللہ کے کرم اور دعائوں سے سنبھلی۔ اس سماج میں اصولوں ‘ قوانین‘ ضابطوں کی شکست و ریخت اس طرح ہوئی کہ اب ان کی پامالی کی بڑی بڑی خبریں معاشرے کے احساس پر اثر انداز نہیں ہوتیں نہ ہی کہیں قانون حرکت میں آتا ہے۔ انصاف کس بلا کا نام ہے اسے تو بس بھول ہی جائیں۔ آئے دن ڈاکٹروں کی ہسپتالوں کی مجرمانہ غفلت کی خبریں اخبارات میں آتی ہیں۔ کسی کی زندگی سے کھلواڑ کرنے کی خبر صرف یک کالمی جگہ پاتی ہے۔ خبر کا مواد دو سے چار لائنیں۔ اور بس۔ جبکہ چونچیں لڑاتے سیاست دانوں کے بے ہنگم بیانات کی جگالی۔ صفحہ اوّل پر نمایاں شائع کی جاتی ہے۔ ایسی خبریں آپ کی نظروں سے اکثر گزری ہوں گی۔ ڈاکٹر مریضہ کے پیٹ میں تولیہ بھول گئے‘ قینچی بھول گئے۔ کہیں کسی ڈاکٹر نے نئے انجکشن کا تجربہ کسی مریض پر کر لیا تو مریض ڈاکٹر کے تجربے کی نذر ہو گیا۔ تھیلی سیمیا کے خون لگوانے والے معصوم بچوں کو۔ ہیپا ٹائٹس سی لاحق ہو جانا کس قدر بڑا ظلم ہے۔ لیکن اس سماج میں ایسا عام ہوتا رہتا ہے۔ ہمارے ایک جاننے والے مریض تھے گردوں کے ڈائیلائسز کروانے جایا کرتے۔ اسی دوران انفیکشن زدہ مشینوں سے یرقان کے مریض بھی بن گئے۔ ڈاکٹروں اور دوائیں بیچنے والوں کے لئے تو یہ ظلم کسی خوش خبری سے کم نہیں۔ لیکن مریض اپنے ساتھ ہونے والی اس بڑی ناانصافی پر کہاں احتجاج کرے۔ اب تو لگتا ہے کہ انسان بیماری سے اس لئے پناہ مانگے کہ ڈاکٹروں سے بچا رہے۔ یہ وہ زوال ہے جو شاید ہمارا معاشرہ قبول کر چکا ہے اس لئے اس پر آوازیں نہیں اٹھتیں۔ اور اگر اٹھیں بھی تو کیا انصاف مل جائے گا۔ شام پڑ چکی تھی اور سروسز ہسپتال کے کمرہ نمبر سی فائیو میں وقت رینگ رینگ کے گزرتا تھا۔ قناعت پسند دانش ور کے چہرے پر کبھی تکلیف کے آثار نمایاں ہوتے اورکبھی ہلکی سی مسکراہٹ۔ میں نے اور خالدہ نے خدا حافظ کے الفاظ کہے تو ڈاکٹر صاحب نے بے آواز سی گفتگو کی۔ استفسار پر پتہ چلا کہ وہ پوچھ رہے ہیں کہ کیسے جائیں گے۔ میں نے جواب دیا گاڑی ہے۔ ان کی اہلیہ کہنے لگیں کوئی بھی عیادت کے لئے آیا ہوا اٹھ کر جانے لگے تو نیازی صاحب یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں بیماری میں بھی میزبان کا یہ رکھ رکھائو متاثر کر دینے والا تھا۔ نیازی صاحب آپ بہت جئیں۔ مادیت پرستی سے نڈھال اس سماج میں آپ جیسے دیانت دار اور قناعت پسند دانشور کی ابھی بہت ضرورت ہے۔