اے حمیداردو کے نامور ادیب ادیب اور کالم نگار تھے۔ انہوں نے بے پناہ لکھا۔ بچوں کی کہانیوں سے لے کر سحرانگیز سفرناموں، دلکش افسانوں سے اخباری مضامین تک۔ ان کا ہفتہ وار کالم ’’چائے، سماوار اور خوشبو‘‘بڑا مشہور تھا۔اے حمدآخری ایام تک اس کالم میں املتاس کے حسین پھولوں، خوبصورت سرسبزدرختوں اور خوشبو اڑاتی چائے کے گرد بپا محفلوں کی داستاں سناتے رہے۔سرتاپامرتسری تھے، سبز چائے مرغوب تھی ، گھر آنے والے خاص مہمانوں کی تواضع اس سے کیا کرتے۔ اے حمید کے وہ کالم ہمیشہ ایک خاص رومانوی کیفیت میں لے جاتے۔لاہور کی تپتی فضائوں، آگ برساتے لو کے تھپیڑوں میں ان کا کالم کسی گھنے درخت کے ٹھنڈے سائے تلے بیٹھ کر یخ بستہ خوشبودار شربت گھونٹ گھونٹ پینے جیسا تھا۔ کتابوں کے ساتھ وقت گزارنا اس اخبارنویس کی زندگی کی تین سب سے بڑی خواہشات میں سے ایک رہا ہے۔ بھاپ اڑاتی چائے کا کپ، ہاتھ میں کتاب اور کچھ وقت کی تنہائی … اس سے زیادہ آدمی کو اور کیا چاہیے؟کئی زمانے ایسے گزرے جب ساری رات کتاب پڑھنے میں گزر گئی۔ فجر کے بعد کہیں جا کر خیال آیا کہ سونا بھی ضروری ہے۔ یہ وہ دن تھے جب ہمیں لگتا تھا کہ کتاب کو ایک ہی نشست میں ختم نہ کرنا اس کی ناقدری کے برابر ہے ۔ کھانے کے وقفوں کے علاوہ دن اور رات میں کوئی تمیز نہیں رکھی جاتی تھی۔ یہ مگر وہ دن تھے، جب گھریلو مصروفیات نام کی کسی چیز سے واقف نہیں تھے، شادی ہوئی تھی اور نہ ہی سماجی تقاضے نبھانے کے لئے کہیں آنے جانے کی ذمہ داری تھی۔ اب تو خیر یہ زمانہ قبل مسیح کی بات لگتی ہے۔ اب تو یہ حال ہے کہ کتاب اٹھائو تو سب سے چھوٹا بیٹا فرمائش کرتا ہے کہ اس میں سے کچھ پڑھ کر سنائیں ۔ بڑے بچے براہ راست مداخلت تو نہیں کرتے، مگر ان کے جھگڑے نمٹانے اور ثالثی کی اہم ذمہ داری ہمیں ہی ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہماری اہلیہ محترمہ کتابوں سے محبت کرتی ہیں،گمان ہے کہ شادی سے پہلے وہ بہت پڑھا کرتی تھیں۔ آج بھی کوئی نئی کتاب خاص کر کسی تازہ شائع شدہ ناول کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں چمک آجاتی ہے اور وہ ہمیشہ اسے پڑھنے کاعزم ظاہر کرتی ہیں۔ترک ناول نگار خاتون ایلف شفق کی’’ ناموس‘‘ سے’’ عشق کے چالیس اصول‘‘ اور ہیری پوٹر سیریز کی پہلی کتاب کے ترجمے سے گارشیا مارکیز کے ناولوں تک ہمیشہ اسی اشتیاق کا مظاہرہ کیا گیا ، اگرچہ بعد میں یوٹیوب کے ڈراموں، کپل شرماشو کے کلپس اور نیٹ فلیکس نے انہیں کتابوں کو پس پشت ڈال دینے پر مجبور کر دیا۔ ہمارا (نائنٹی ٹو نیوز)سنڈے میگزین البتہ آج بھی ان کی طرف سے مکمل طور پر دیکھا اور پڑھا جاتا ہے، شائد خاوندکی تالیف قلب مقصودہو۔ خیر دوسروں سے کیا گلہ، ہمارا اپنا بھی حال یہی ہوتاچلا گیا۔ چار پانچ اخبار روزانہ صحافتی ذمہ داریوں کی وجہ سے پڑھنے پڑتے ہیں، درجن بھر کالم،تمام رنگین ایڈیشن،سیاسی ، غیر سیاسی خبریں وغیرہ باریک بینی سے پڑھنا پڑتی ہیں۔باقی وقت سوشل میڈیا یعنی فیس بک پوسٹوں، سٹیٹس، واٹس ایپ گروپس کی فضول، لایعنی، ایک دوسرے پر الزام لگانے والی بحثوں کو پڑھنے میں ہی ضائع ہوجاتا۔ پچھلے کچھ عرصہ سے بار بار یہ خیال آتا رہا ہے کہ ہم سوشل میڈیا کا رومانوی انداز میں ذکر کرتے اور اسے اپنی زندگیوں کا لازمی جز بنا چکے ہیں۔ بہت سے دوست ہیں جو صبح اٹھتے ہی موبائل اٹھا کر پہلے واٹس ایپ سٹیٹس اور فیس بک پوسٹیں چیک کرتے ہیں، پھر دن بھر یہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ دوست کھانے کی میز پر اکھٹے ہوں، تب بھی یہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ سوشل میڈیا کو اگر سمجھداری سے استعمال کیا جائے تو اس کی افادیت ہے۔سوشل میڈیا سے اچھے ، ہم مزاج دوست بھی دریافت ہوئے، آج ان کے ساتھ گہرا قلبی تعلق ہے۔اس کے ذریعے اندازہ ہوجاتا کہ لوگ کیا سوچ رہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کچھ چیزیں جو مین سٹریم میڈیا پر نہیں آ سکتیں، سوشل میڈیا پروہ مل جاتی ہیں۔یہ سب افادیت کا حامل ہے۔ ایک اہم ترین بات مگر ہم سب نظرانداز کر رہے ہیں کہ فیس بک اور ٹوئٹر کے ذریعے بہت سی ناپختہ، سطحی، آدھی کچی پکی آرا بھی پڑھنے پر مجبور ہیں۔بہت سے ایسے چھوٹے بڑے سٹیٹس پڑھنے پڑتے ہیںجن میں کوئی معنویت نہیں، عام حالات میںدیکھنا بھی گوارانہ کرتے۔ فون پراوپر سے نیچے جاتے ہوئے ہم اپنا وقت ان نیم پختہ،نیم برشت ، کنفیوزڈ تھیوریز کو پڑھنے میں ضائع کر دیتے ہیں۔اس وقت میں بہت کچھ بہتر، اوریجنل پڑھا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی جس گہرائی ، وسیع تناظر اور علم سے کوئی اچھی کتاب روشناس کراتی ہے، درجنوں اخباری مضامین، آرٹیکلز وہ کام نہیں کر پاتے۔ اخبار روزمرہ اپ ڈیٹس کے لئے مفید ہیں، بیک گرائونڈ نالج ، فکر کی تشکیل اور چیزوں کو اچھے طریقے سے سمجھنے کے لئے آپ کو کتاب کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم نے تو یہ فیصلہ کیا کہ سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی برقرار رکھنا ہے، دوستوں کے ساتھ رابطے جاری رہیں، اہم ایشو پر پوسٹیں وغیرہ چلتی رہیں، مگر ایک حد سے زیادہ ادھر وقت نہیں دینا۔ اپنے وقت کا ایک حصہ نئی کتابوں کو پڑھنے میں صرف کرنا ہے۔ اس بار یہ بھی طے کیا کہ صرف فکشن نہیں بلکہ نان فکشن کتابیں، خاص کر انگریزی میں شائع ہونے والا موادضرور پڑھنا ہے۔ ایک اور رکاوٹ جس کا ہم لوگ اکثر شکار ہوجاتے ہیں، وہ ای بک یا پی ڈی ایف فارمیٹ میں کتاب ہے۔ بہت بار سننے میں آتا ہے کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے ، ماڈرن سوچ رکھنے والے بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم سے ای بک نہیں پڑھی جاتی ، جو مزہ ہارڈ کاپی یعنی کاغذ والی کتاب کو ہاتھ میں پکڑنے کا ہے ، وہ کمپیوٹر میں پڑھنے میں کہاں وغیرہ وغیرہ۔خاکسار آپ سب دوستوں کو خبردار کرنا چاہتا ہے کہ نفس کے بے شمار دھوکوں میں سے یہ بھی ایک دھوکا ہے۔ ہم نئے دور میں زندہ ہیں، جدید ٹیکنالوجی سے جی بھر کر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ہمارا پوراطرز زندگی ہی بدل چکا ہے۔ اسی بدلتے ہوئے طرز زندگی کا ایک حصہ ای بک ہے۔ یہ ایک نعمت ہے۔ بہت سی ایسی کتابیں ہیں جو ابھی پاکستان میںہارڈ کاپی کی شکل میں نہیں پہنچ سکیں، ان کی ای بکس مگر نہایت کم داموں پر خریدی جا سکتی ہیں۔ کئی ویب سائٹس، بہت سے گروپ ایسے ہیں جہاں کچھ پرانی، سال دو سال پہلے کی کتابیںآسانی سے مل جاتی ہیں۔ ہارڈ کاپی میں وہ کتاب ڈھائی تین ہزار روپے سے کم نہیں ، وہاں سے ایک ڈیڑھ ڈالر میں مل جائے گی۔ انہیں ڈائون لوڈ کریں اورمزے سے اپنے لیپ ٹاپ پر پڑھیں۔ چاہیں تو موبائل پر بھی کچھ پڑھ لیں، ورنہ تھوڑی سی زحمت کر کے بک ریڈر لے لیں، کِنڈل بھی لی جا سکتی ہے۔بک ریڈر تو اب کتاب کے سائز کی طرح آ گئے ہیں، وہاں باقاعدہ صفحہ پلٹنے کی سی کیفیت بھی ملتی ہے۔ یہ بک ریڈردن کی روشنی میں بھی بیٹھ کر پڑھے جا سکتے ہیں، ان کی سکرین میں تنگ کرنے والی چمک موجود نہیں۔میرا مشورہ مانیں تو بظاہر متروک ہوجانے والے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز کو خیرباد نہ کہیں۔ مناسب سا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر بنوا لیں، بہت کم دام پر اس کی میز بھی مل جائے گی، بڑا والامانیٹر یا ایل ای ڈی سکرین لے لیں اور سکون سے کتابیں وغیرہ میز کرسی پر بیٹھ کر پڑھیں۔آرام دہ کرسی بھی استعمال کر سکتے ہیں، جس پر آپ پیچھے کو سر جھکا کر ہلکورے لیں اور پڑھا ہوا منظر ذہن میں لے آئیں۔ جب جی چاہے وہاں بیٹھ کر فلم دیکھ لیں۔ شاہکار فلموں کی فہرست بنا لیں،انہیںدیکھیں اور اپنے تناظر کو وسیع کریں۔ چائے اور کافی کے ہم ازحد شائق ہیں۔ آج کل ہم نے قہوہ کو بھی اپنی زندگی میں شامل کر لیا ہے۔پنڈی کے ایک معروف حکیم ، جو روحانی شخصیت بھی ہیں، نے مجھے سانس کی شکایت کے لئے قہوہ تجویز کیا تھا، معدے اور تھکن کے لئے بھی مفید ہے ۔ چٹکی بھر سونف، چٹکی دار چینی، چٹکی پودینہ، چٹکی جتنی ادرک اور صرف تین لونگ۔ پانی ابال کر کسی کپ یا چھوٹی تھرموس میں ڈال لیں اور ان چیزوں کو صرف دو منٹ کے لئے اس میں دم کر لیں، بعد میں چھان کر پی لیں۔ ایسا خوشبو دار، مہکتا ہوا قہوہ شائد ہی کسی کو نصیب ہوگا۔ ذائقہ بہتر کرنے کے خواہشمند آدھا چمچ شہد بھی ملا سکتے ہیں۔ ہم نے تو قہوہ کی مہک اور کتاب کی خوشبوکے حسین امتزاج کو اپنا لیا ہے۔یہ نہ پوچھئے گا کہ ای بک میں خوشبو کہاں سے آئی؟ بھائی خوشبو صرف کاغذ کی نہیں ہوتی۔بڑے خوبصورت کاغذ والی بکواس ترین کتابیں ہم نے دیکھی ہیں۔ کتاب کی اصل خوشبو تو اس کی فکر، خیالات، متن کی ہوتی ہے۔ وہی حسین ، دل آویز خوشبو ہی دل وجاں میں سما جاتی اور برسوں بعد بھی اپنی یاد دلاتی رہتی ہے۔ کالم شروع کیا تو ارادہ کیا تھا کہ ان کتابوں کا تذکرہ کروں جنہیں اس عزم کے ساتھ نمٹانے کا ارادہ کیا ہے۔ ان میں ترک نوبیل انعام یافتہ ادیب اورحان پاموک کا ایک مشہور ناول ہے جبکہ پوری آٹھ نان فکشن کتابیں، جن میں اکثر بیشتر افغانستان، امریکہ ، سی آئی اے ، آئی ایس آئی پر ہیں۔ایک کتاب تو اچھی خاصی پڑھ لی ، امید کرنی چاہیے کہ اگلے دو دنوں میں نمٹ جائے گی۔ ایسا ہوا تو ان شااللہ اگلا کالم اس پر لکھوں گا کہ اس کے مندرجات بڑے چونکا دینے والے اوردلچسپ ہیں۔