اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے پناہ گزین مشعل بیچلٹ نے بدنامہ زمانہ شہریت قانون کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے یہ درخواست بھارت میں بڑے پیمانے پر مذہبی امتیاز پر مبنی قانون سازی کے خلاف عوام کے احتجاج کے بعد دائر کی گئی۔ مسلمان پناہ گزینوں کو بھارت کی شہریت نہ دینے کی پالیسی پر مبنی اس شہریت قانون کے خلاف پورے بھارت میں پرتشدد مظاہرے اور احتجاج کے دوران اب تک 40افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اس معاملے پر دہلی میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا جس میں 50افراد جاں بحق ہوئے۔ بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اقوام متحدہ کی جانب سے شہریت قانون کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے اور بھارتی پارلیمنٹ کو یہ صوابدیدی حق حاصل ہے کہ وہ جس معاملے پر چاہے قانون سازی کا اختیار استعمال کرے۔بھارتی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی حکومت یقین رکھتی ہے کہ بھارتی خود مختاری کے معاملات پر کوئی غیر ملکی ادارہ یا پارٹی سوال اٹھانے کا استحقاق نہیں رکھتی۔بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ آزادی کے وقت جو کچھ کیا گیا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ کا سیاہ باب بن کر رہ گیا۔ پھر بھارت نے پہلے دن سے کشمیر پر قبضہ کیا‘ کشمیر کے عوام کی مرضی کے بغیر ان پر جبری حکومت کی اور اب تک یہ جبر مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کی صورت دکھائی دیتا ہے۔ بھارت کبھی بھی سیکولر نہیں تھا۔ پنڈت نہرو اور ان کے رفقا نے ہندوستان کی غیر ہندو اقوام کو الگ الگ وطن کا مطالبہ کرنے سے روکنے کی خاطر سیکولر ازم اور جغرافیائی بنیاد پر قوم پرستی کا نعرہ لگایا۔ وہ کسی حد تک انگریز حکام کو قائل کرنے میں کامیاب رہے کہ ان کو ہندوستان کی اکثریتی ہندو آبادی کے علاوہ مسلمانوں کے اہم رہنمائوں‘ دلتوں ‘ عیسائیوں اور سکھوں کی تائید و حمایت حاصل ہے۔ پنڈت نہرو اور سردار پٹیل کی ریشہ دوانیوں نے سکھوں کو خالصتان کے مطالبے سے باز رکھا اور وہ ہندو اکثریتی بھارت کا حصہ بننے پر تیار ہوئے۔ بھارت میں ہندو توا کا تخریبی نظریہ پہلے دن سے موجود تھا۔ کانگرسی قیادت نے ملک کی جمہوری اور کثیر القومی شناخت کا ایک بھرم رکھا ہوا تھا۔ یہ بھرم بی جے پی اور آر ایس ایس نے نوے کے عشرے میں خاکستر کر دیا۔ بی جے پی کے طاقت پکڑتے ہی سب سے پہلے مسلمان نشانہ بنے۔ صدیوں سے موجود بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ بی جے پی کی پہلی مرکزی حکومت اٹل بہاری واجپائی کی سربراہی میں بنی مگر بھارت کی اصل تباہی کی بنیاد نریندر مودی نے رکھی۔ مودی نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے مسلمانوں کا خون بہایا۔ عالمی اداروں نے مودی کے اس کردار کی مذمت کی اور امریکہ نے ایک طویل عرصہ انہیں اپنے ہاں داخلے کی اجازت نہ دی۔ نریندر مودی کے دور میں مسلمانوں کو سیاسی طور پر کمزور کیا گیا۔ بی جے پی نے حالیہ عام انتخابات میں ملک کی 20فیصد آبادی مسلمانوں کے لئے 10پارٹی ٹکٹ بھی مختص نہ کئے۔ مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے مودی حکومت نے جہاں ان کی سیاسی نمائندگی کم کی وہاں ان کے کاروبار کو نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی کی۔ صدیوں سے آباد مسلمانوں سے ان کے بھارتی شہری ہونے کا ثبوت طلب کیا جانے لگا۔ شہریت قانون اس لحاظ سے امتیازی کہلا سکتا ہے کہ اس میں دنیا بھر کے عقائد والے لوگوں کو بھارت میں آنے اور یہاں کی شہریت لینے کا حقدار تسلیم کیا گیا لیکن مسلمانوں کے لئے بھارت کی سرحد بند رکھنے کا کہا گیا۔ دنیا میں کوئی ملک بھی اس طرح کا امتیازی قانون نہیں رکھتا۔ مسلمانوں کے خلاف بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی پے درپے کارروائیوں نے بھارتی مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا ہے کہ ان کی بقا کو خطرہ ہے۔ چند ہفتے قبل نئی دہلی میں ریاستی انتخابات ہوئے۔70میں سے 63نشستیں عام آدمی پارٹی جیت گئی۔ مودی اور ان کے حواریوں کو یہ رنج۔ وہ یہاں اس کے ووٹروں کو بھی سزا دینا چاہتے تھے۔ دہلی میں مسلمانوں کے گھر جلائے گئے‘ ان کی دکانیں نذر آتش ہوئیں‘ مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دہلی کے شاہین باغ میں مسلم خواتین کئی ماہ سے شہریت قانون کے خلاف دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے معاملے پر جس ناانصافی پر مبنی فیصلہ کیا اس سے امید رکھنا دانشمندی نہیں تاہم بھارتی مسلمانوں کی بے بسی عالمی برادری کو متوجہ کر رہی ہے۔پاکستان نے بھارت کے ساتھ تمام تنازعات کو ہمیشہ مذاکرات سے حل کرنے کی بات کی ہے۔ بھارت نے پاکستان کی جانب سے امن مذاکرات کی ہر پیشکش کو تکبر سے رد کیا ہے۔ یہ صورت حال پاکستان کے لئے قطعی اطمینان بخش نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں‘ صدر ٹرمپ سے ملاقاتوں کے دوران اور ہر سفارتی پلیٹ فارم پر مودی حکومت کی مسلم دشمنی پر مبنی پالیسیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ اقوام متحدہ نے بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ قبل ازیں گزشتہ برس جولائی میں اقوام متحدہ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر رپورٹ جاری کی تھی۔ بھارت کی سماجی اور معاشی ترقی کے لئے انتہا پسند رویے تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔ بھارت کے عوام نے تشدد پسند جنونی ہندوئوں کا راستہ نہ روکا اور بھارتی سپریم کورٹ نے آئین و قانون کی بجائے مودی حکومت کا ساتھ دیا تو خطے میں کسی سانحہ کا رونما ہونا بعیداز قیاس نہ ہو گا۔